سورة یوسف - آیت 76

فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاءِ أَخِيهِ ۚ كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ ۖ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پس یوسف نے ان کے سامان کی تلاشی شروع کی، اپنے بھائی کے سامان کی تلاشی سے پہلے، پھر اس پیمانہ کو اپنے بھائی کے سامان (زنبیل) سے نکالا (١) ہم نے یوسف کے لئے اسی طرح یہ تدبیر کی (٢) اس بادشاہ کی قانون کی رو سے یہ اپنے بھائی کو نہ لے جاسکتا تھا (٣) مگر یہ کہ اللہ کو منظور ہو ہم جس کے چاہیں درجے بلند کردیں (٤) ہر ذی علم پر فوقیت رکھنے والا دوسرا ذی علم موجود ہے (٥)۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(64) اعلان کرنے والے نے بنیامین کے سامان سے پہلے بھائیوں کے سامان میں تلاش کیا، پھر بنیامین کے سامان سے پیالہ نکال لیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یوسف کی غرض پوری کرنے کے لیے ہم نے یہ تدبیر کی تھی، اس لیے کہ شاہ مصر کے قانون و دستور کے مطابق یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائی بنیامین کو نہیں لے سکتے تھے، البتہ یعقوب (علیہ السلام) کے دین و شریعت میں یہ تھا کہ چور کو غلام بنا لیا جاتا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود ان بھائیوں کی زبان سے ان کے باپ کے دین کے مطابق کہلوایا کہ جو چور ہوگا وہ بادشاہ کا غلام بنا لیا جائے گا، ان کا یہ کہنا اللہ کی مشیت کے مطابق تھا تاکہ یوسف اپنے بھائی بنیامین کو اپنے پاس روک سکیں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس طرح ہم نے علم کے ذریعہ یوسف کو بلند مقام دیا، اسی طرح ہم جسے چاہتے ہیں علوم و معارف دے کر اس کے ہم عصروں میں اسے عالی مقام بنا دیتے ہیں اور ہر علم والے سے بڑا علم والا ہوتا ہے، اسی لیے حسن بصری کہا کرتے تھے کہ ہر علم والے سے بڑا علم والا ہے، یہاں تک کہ یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ پر ختم ہوجاتا ہے، اس سے بڑا کوئی عالم نہیں اور اس کا علم بحر بے کنار ہے۔