يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا ۖ وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِن رَّأْسِهِ ۚ قُضِيَ الْأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ
اے میرے قید خانے کے رفیقو! (١) تم دونوں میں سے ایک تو اپنے بادشاہ کو شراب پلانے پر مقرر ہوجائے گا (٢) لیکن دوسرا سولی پر چڑھایا جائے گا اور پرندے اس کا سر نوچ نوچ کر کھائیں گے (٣) تم دونوں جس کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے اس کام کا فیصلہ کردیا گیا ہے (٤)۔
(37) جب یوسف (علیہ السلام) نے انہیں اپنا علمی مقام بتا دیا، اور توحید کی دعوت ان کے سامنے پیش کردی، تو اب ان کے خوابوں کی تعبیر بتانا شروع کیا، اور چونکہ ان کے سوال کے بعد یوسف علیہ السلام کی دعوتی گفتگو طویل ہوگئی تھی، اسی لیے انہوں نے دوبارہ ان دونوں کو مخاطب کیا اور کہا کہ اے جیل کے میرے دونوں ساتھی ! تم میں سے ایک جیل سے نکل کر پہلے کی طرح بادشاہ کا ساقی بحال ہوجائے گا اور دوسرا قتل کردیا جائے گا اور سولی پر لٹکا دیا جائے گا اور چڑیاں اس کے سر کا گوشت کھائیں گی، جو سوال تم دونوں نے کیا ہے اس کے بارے میں اللہ کا یہی فیصلہ ہوچکا ہے۔