وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ مَا كَانَ لَنَا أَن نُّشْرِكَ بِاللَّهِ مِن شَيْءٍ ۚ ذَٰلِكَ مِن فَضْلِ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ
میں اپنے باپ دادوں کے دین کا پابند ہوں، یعنی ابراہیم و اسحاق اور یعقوب کے دین کا (١) ہمیں ہرگز یہ سزاوار نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو بھی شریک کریں (٢) ہم پر اور تمام اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص فضل ہے، لیکن اکثر لوگ ناشکری کرتے ہیں۔
(35) انہوں نے ان دونوں کو یہ بھی بتانا چاہا کہ مجھے جو یہ رتبہ بلند ملا ہے، اور یہ الہامی علم حاصل ہوا ہے، تو اس کا سبب یہ ہے کہ میں نے ان لوگوں کے دین کو قبول نہیں کیا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، بلکہ میں اپنے آباؤ اجداد ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کے دین پر ایمان لے آیا جو اللہ کے انبیاء تھے، اور اس تفصیل سے ان کا مقصد انہیں یہ بھی بتانا تھا کہ میں خانوادہ نبوت کا چشم و چراغ ہوں، تاکہ جب ان کے سامنے اپنی دعوت رکھیں تو وہ غور سے سنیں، اور میں یوسف (علیہ السلام) نے جمع کی ضمیر اپنے ساتھ ان دونوں کا بھی اعتبار کر کے استعمال کیا، اس لیے کہ بظاہر انہیں یقین ہو چلا تھا کہ وہ دونوں ان کی دعوت کو قبول کرلیں گے اور میں من شیئ شرک کے عموم نفی کی تاکید کے لیے لایا گیا ہے کہ چاہے کوئی چھوٹی چیز ہو یا کوئی حقیر شے، بت ہو یا فرشتہ، یا کوئی جن ہو یا کوئی اور چیز، جسے اللہ کا شریک بنانا حرام ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کی وحدانیت کا اقرار اور کسی کو اس کا شریک نہ بنانا موحد مسلمانوں کے لیے بہت بڑی نعمت ہے، لیکن اکثر لوگ اللہ کے ناشکرے بندے ہوتے ہیں، اسی لیے نہ اس پر ایمان لاتے ہیں، نہ ہی اس کی توحید کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں، اور نہ اس کی شریعت پر عمل کرتے ہیں۔