يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَٰذَا ۚ وَاسْتَغْفِرِي لِذَنبِكِ ۖ إِنَّكِ كُنتِ مِنَ الْخَاطِئِينَ
یوسف اب اس بات کو آتی جاتی کرو (١) اور (اے عورت) تو اپنے گناہ سے توبہ کر، بیشک تو گنہگاروں میں سے ہے (٢)۔
(27) عزیز مصر چونکہ معاملہ کو پوری طرح سمجھ چکا تھا، اسی لیے یوسف کے ساتھ نہایت نرمی کا اسلوب اختیار کیا اور کہا کہ اے یوسف ! تمہارے ساتھ جو زیادتی ہوئی ہے اسے نظر انداز کردو اور حادثہ پر پردہ ڈال دو اور کسی سے بیان نہ کرو، اس کے بعد اپنی بیوی سے مخاطب ہوا اور کہا کہ ساری غلطی تمہاری ہے، تم نے اس نوجوان کو ورغلانا چاہا تھا، اور اب اسی پر تہمت دھرنے کی کوشش کر رہی ہو، اس لیے اپنے گناہ کی معافی مانگو۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس نے اپنی بیوی کو اس لیے معذور جانا کہ کسی عورت کے لیے یوسف کا جمال دیکھ کر صبر کرنا نہایت مشکل کام تھا۔ کرخی کہتے ہیں کہ عزیز میں غیرت کی کمی تھی، شہاب کہتے ہیں یہ یوسف کے ساتھ کرم فرمائی تھی (اس لیے کہ اگر عزیز غضبناک آدمی ہوتا تو یوسف کو نقصان پہنچ سکتا تھا) ابو حیان کہتے ہیں کہ سر زمین مصر کی یہی خاصیت تھی۔