وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً ۖ وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ
اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی راہ پر ایک گروہ کردیتا۔ وہ تو برابر اختلاف کرنے والے ہی رہیں گے۔
(96) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ اس بات پر کامل قدرت رکھتا ہے کہ تمام بنی نوع انسان کو کفر یا ایمان کی صرف ایک راہ پر اکٹھا کردے، سب کو کفر پر جمع کردے، یا سب کو اسلام پر جمع کردے، لیکن اس نے ایسا نہیں چاہا، اس لیے ایسا نہیں ہوا۔ اور لوگ ہمیشہ ہی آپس میں عقیدہ و دین کے بارے میں اختلاف کرتے رہیں گے، کوئی یہودی ہوگا تو کوئی نصرانی، اور کوئی مجوسی و مشرک ہوگا تو کوئی مسلمان، یہاں تک کہ قیامت آجائے گی، البتہ ان میں سے جن کے حال پر اللہ نے رحم کیا، وہ اپنے عہد کے نبی کے صحیح دین پر قائم رہے، اور نسلا بعد نسل اسی پر عمل پیرا رہے، یہاں تک کہ نبی کریم (ﷺ) اللہ کا آخری دین لے کر دنیا میں تشریف لائے، تو انہوں نے ان کی پیروی کی، ان پر ایمان لے آئے، اور ان کا ساتھ دیا، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا و آخرت کی سعادتوں سے نوازا، اور یہی لوگ فرقہ ناجیہ کہلائے۔ اور جب تک جو بھی قرآن و سنت کی اس راہ پر گامزن رہے گا، اس کا شمار فرقہ ناجیہ میں ہوگا، اور وہ ان لوگوں میں سے ہوگا جن کے حال پر اللہ نے رحم کیا۔