فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ ۗ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ
پس کیوں نہ تم سے پہلے زمانے کے لوگوں میں سے ایسے اہل خبر لوگ ہوئے جو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے، سوائے ان چند کے جنہیں ہم نے ان میں سے نجات دی تھی (١) ظالم لوگ تو اس چیز کے پیچھے پڑگئے جس میں انھیں آسودگی دی گئی تھی اور وہ گنہگار تھے (٢)
(94) یہاں دوبارہ ان گزشتہ امتوں کی ہلاکت کا سبب بیان کیا جارہا ہے جن کے واقعات تفصیل کے ساتھ اوپر بیان کیے جاچکے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں اس لیے جڑ سے کاٹ دیا اور صفحہ گیتی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا کہ جب ان میں گناہ عام ہوگیا تو ہلاک ہونے والوں میں کوئی بھی ایسا آدمی نہ تھا، جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا، سوائے ان چند افراد کے جن کو اللہ نے اس عذاب سے نجات دیا، ان ظالموں کو اللہ تعالیٰ نے جو سامان تعیش دیا تھا اس میں ایسا ڈوب گئے کہ عیش پرستی ان کی زندگی کا مقصد بن گئی، آخرت سے یکسر غافل ہوگئے اور دینی، اخلاقی اور سماجی گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کر کے اللہ کی نگاہ میں مجرم بن گئے، تو ان اعمال مجرمانہ کے سبب ہلاک کردئے گئے۔