سورة ھود - آیت 113

وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

دیکھو ظالموں کی طرف ہرگز نہیں جھکنا ورنہ تمہیں بھی (دوزخ کی) آگ لگ جائے گی (١) اور اللہ کے سوا اور تمہارا مددگار نہ کھڑا ہو سکے گا اور نہ تم مدد دیئے جاؤ گے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(92) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان لوگوں کی طرف مائل نہ ہوں جنہوں نے شرک و معاصی کا ارتکاب کر کے ظلم کی راہ اختیار کرلی ہے، اس لیے کہ یہ ان کے مشرکانہ اعمال سے راضی ہونے کی دلیل ہوگی، ظلم کرنے والوں کو تقویت ملے گی اور حق پر رہنے والے کمزور ہوتے جائیں گے۔ ائمہ تفسیر نے اس آیت کے بارے میں اختلاف کیا ہے کہ یہاں ظلم سے مراد صرف شرک اور ظلم کرنے والوں سے مراد صرف مشرکین ہیں، یا ظلم سے مراد ہر وہ فعل ہے جس پر ظلم کا اطلاق ہوتا ہے اور ظلم کرنے والوں سے مراد مشرک اور غیر مشرک سبھی ہیں۔ عوفی نے ابن عباس سے پہلا قول نقل کیا ہے، اور شوکانی اور صاحب فتح البیان کہتے ہیں کہ آیت کا مفہوم عام ہے اور مشرک اور غیر مشرک سب کو شامل ہے، اس لئے کہ اگرچہ آیت کا سبب نزول مشرکین ہیں لیکن مفسرین کے نزدیک ہمیشہ عموم لفظ کا اعتبار ہوتا ہے، نہ کہ خصوص سبب کا، لیکن ایسی صورت میں اشکال یہ پیش آتا ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کی متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ مسلمان حکمران کی اطاعت کرو، چاہے وہ حبشی کیوں نہ ہو جس کا سر کشمش کی مانند ہو، دوسری صحیح احادیث میں ہے کہ جب تک وہ نماز قائم کریں، صریح کفر کا ارتکاب نہ کریں، اور اللہ کی نافرمانی کا حکم نہ دیں ان کی اطاعت واجب ہے۔ اب اگر کوئی شخص ان حادیث کے پیش نظر کسی ظلم کرنے والے حکمران کی بات مانتے ہوئے اس کی حکومت میں دینی مناصب کو قبول کرتا ہے، حدود کو قائم کرنے میں اس کے ساتھ تعاون کرتا ہے اور مسلمانوں کے مصالح خاصہ اور مصالح عامہ کو مد نظر رکھتے ہوئے دیگر امور مملکت کے سنبھالنے اور چلانے میں اس کا ساتھ دیتا ہے، تو کیا وہ اس آیت میں مذکور وعید کا مستحق ہوگا؟ علماء نے اس کی نفی کی ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ دل سے اس کے ظالمانہ اعمال کی تائید نہیں کرتا ہے، تو مذکورہ بالا احادیث اور اس معنی کی دیگر متواتر احادیث کے پیش نظر اس آیت میں مذکور وعید کا مستحق نہیں ہوگا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ظلم سے ممانعت اور اس پر اللہ کی طرف سے دھمکی کی بڑی دلیل ہے، اس لیے کہ جب ظلم کرنے والوں کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھنے والوں کی سزا جہنم بتائی گئی ہے، تو ان کا حال کیا ہوگا جن کی زندگی مشرکانہ اعمال اور ظلم و بربریت میں ڈوبی ہوئی ہو۔