وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ
یقیناً ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی۔ پھر اس میں اختلاف کیا گیا، (١) اگر پہلے ہی آپ کے رب کی بات صادر نہ ہوگئی ہوتی تو یقیناً ان کا فیصلہ کردیا جاتا (٢) انھیں تو اس میں سخت شبہ ہے۔
(89) نبی کریم (ﷺ) کو تسلی دی جارہی ہے کہ ہم نے موسیٰ کو تورات دیا تھا، تو لوگ اس کے بارے میں دو جماعتوں میں بٹ گئے، کچھ لوگ اس پر ایمان لائے، اور کچھ لوگوں نے اس کا انکار کردیا، اسی طرح کچھ لوگوں نے اس میں موجود احکام پر عمل کیا، اور کچھ لوگوں نے عمل نہیں کیا، تو اے میرے نبی (ﷺ) قرآن کریم کے سلسلے میں بھی کفار کا رویہ دیکھ کر آپ کبیدہ خاطر نہ ہوں، اگر پہلے سے اللہ کا فیصلہ نہ ہوتا کہ قیامت کے دن تک کے لیے عذاب کو ان سے موخر کردیا جائے، تو فورا ہی ان کا فیصلہ کردیا جاتا۔ آیت کا ایک دوسرا معنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کی رحمت اس کے غضب پر سبقت کرگئی ہے، اسی لیے اللہ نے انہیں ڈھیل دے دیا ہے، اور عذاب میں جلدی نہیں کی ہے، حقیقت یہ ہے کہ کفار قرآن کریم کے بارے میں بہت ہی گہرے شک میں مبتلا ہیں۔