وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
اور جس جگہ سے آپ نکلیں اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں اور جہاں کہیں تم ہو اپنے چہرے اسی طرف کیا کرو (١) تاکہ لوگوں کی کوئی حجت باقی نہ رہ جائے (٢) سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا ہے (٣) تم ان سے نہ ڈرو (٤) مجھ سے ہی ڈرو تاکہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کروں اور اس لئے بھی کہ تم راہ راست پاؤ۔
اور یہ سب اللہ نے اس لیے کیا تاکہ اہل کتاب اور مشرکین کے پاس نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خلاف باتیں بنانے کا بہانہ باقی نہ رہ جائے، کیونکہ اہل کتاب اپنی کتابوں کے ذریعہ جانتے تھے کہ خاتم النبیین کا قبلہ کعبہ ہوگا، اگر بیت المقدس ہی قبلہ رہ جاتا تو اہل کتاب کو حیرانگی ہوتی اور دل میں رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نبوت میں شبہ کرتے، اور مشرکین کہتے کہ محمد دعوی کرتا ہے کہ وہ ملت ابراہیمی پر گامزن ہے، اور اس کی اولاد میں سے ہے، تو پھر ابراہیم کا قبلہ کیوں نہیں اختیار کرتا، چنانچہ کعبہ کے قبلہ ہوجانے کے بعد سب کی زبانیں تقریباً بند ہوگئیں۔ سوائے چند ظالموں کے جنہیں کوئی نہ کوئی بات بناتے رہنا تھا۔ مجاہد کہتے ہیں کہ بعض یہودیوں نے کہا کہ محمد اپنے باپ کے گھر اور اپنی قوم کے دین کا مشتاق ہوگیا ہے اور بعض مشرکوں نے آپس میں کہنا شروع کیا کہ محمد جب ہمارے قبلہ کی طرف لوٹ گیا ہے تو اب ہمارے دین کی طرف بھی لوٹ جائے گا۔ اس کے بعد اللہ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ تم لوگ ان کی فتنہ انگیز باتوں سے نہ گھبراؤ، اور مجھ سے ڈرو، اور میرے حکم کی مخالفت نہ کرو، میں چاہتا ہوں کہ اپنی نعمت تم پر تمام کردوں، اور تم لوگ حق کو پہچان کر اس پر عمل کرو۔