قَالُوا يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَن يَصِلُوا إِلَيْكَ ۖ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ إِلَّا امْرَأَتَكَ ۖ إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ ۚ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ ۚ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ
اب فرشتوں نے کہا اے لوط! ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں ناممکن ہے کہ یہ تجھ تک پہنچ جائیں پس تو اپنے گھر والوں کو لے کر کچھ رات رہے نکل کھڑا ہو۔ تم میں سے کسی کو مڑ کر بھی نہ دیکھنا چاہیئے، بجز تیری بیوی کے، اس لئے کہ اسے بھی وہی پہنچنے والا ہے جو ان سب کو پہنچے گا یقیناً ان کے وعدے کا وقت صبح کا ہے، کیا صبح بالکل قریب نہیں (١)
(67) جب فرشتوں نے ان کی یہ درد بھری بات سنی اور دیکھا کہ ان کی قوم کے بدمعاش لوگ ان پر چڑھ آئے ہیں، اور وہ مہمانوں کا دفاع کرنے سے عاجز ہوگئے ہیں، تو اپنی حقیقت ظاہر کردی اور کہا کہ اے لوط ! ہم آپ کے رب کے فرشتے ہیں، یہ لوگ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے، آپ آخری پہر رات میں جب لوگ خواب غفلت میں مبتلا ہوں اپنے مسلمان ساتھیوں کو لے کر یہاں سے نکل جایے، تاکہ کوئی کافر آپ لوگوں کو یہاں سے نکل جانے سے روک نہ سکے، اور جب ان پر عذاب نازل ہورہا ہو اور آپ لوگ ان کی چیخ و پکار سنیں تو مڑ کر نہ دیکھیے، تاکہ کہیں اس عذاب کا اثر آپ تک نہ پہنچ جائے، لیکن آپ کی بیوی پر وہ عذاب ضرور نازل ہوگا، اس لیے کہ وہ مؤمن نہیں ہے، کہا جاتا ہے کہ صبح کے وقت روانہ ہونے والے مسلمانوں کے ساتھ وہ بھی تھی، لیکن جب اس نے چیخ و پکار سنی تو مڑ کر دیکھنے لگی، اچانک آسمان سے ایک پتھر آیا اور اسے ہلاک کردیا، ایک روایت کے مطابق لوط (علیہ السلام) کے پاس مہمانوں کی اطلاع بدمعاشوں کو اسی نے دی تھی۔