وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
ہر شخص ایک نہ ایک طرف متوجہ ہو رہا ہے (١) تم اپنی نیکیوں کی طرف دوڑو۔ جہاں کہیں بھی تم ہو گے، اللہ تمہیں لے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
222: یہ آیت بتاتی ہے کہ ہر صاحب دین و ملت کے لیے ایک مخصوص جہت ہوتی ہے، جدھر وہ اپنی عبادتوں میں رخ کرتا ہے، جیسے مسلمانوں کا قبلہ کعبہ، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا میں مختلف مذاہب اور متعدد ادیان پائے جاتے ہیں، اس لیے عقلمند آدمی کو چاہیے کہ ان میں جو سب سے بہتر اور اعلی و ارفع دین ہو، اسے اپنائے، اور تمام عقلائے بنی نوع انسان کا اس پر اتفاق ہے کہ دین اسلام ہی وہ دین ہے جس میں انسان کے لیے تمام بھلائیاں جمع کردی گئی ہیں، اس لیے اسے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ہر انسان کو ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہئے۔ 223: کلمہ مسابقت، مسارعت سے زیادہ بلیغ ہے، کیونکہ اس میں دوسروں پر سبقت لے جانے کا معنی بھی پایا جاتا ہے، اور خیرات سے مراد وہ تمام اعمال صالحہ ہیں جن کے ذریعہ دنیا وآخرت کی سعادت حاصل کی جاسکتی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصیحت کی ہے کہ تمہارا شیوہ ہر خیر اور ہر بھلائی کی طرف سبقت کرنا ہونا چاہئے۔ 224: اس میں اعمالِ صالحہ کے لیے ایک قسم کی ترغیب ہے، کیونکہ آدمی کو جب یقین ہوگا کہ اللہ اسے دوبارہ زندہ کرے گا اور اسے اس کے اعمال کا بدلہ چکائے گا، تو پھر وہ آخرت کی تیاری میں تیز تر ہوجائے گا 225: یعنی اللہ تعالیٰ روز قیامت تمہیں زمین کے گوشے گوشے سے جمع کرنے پر قادر ہے، چاہے تمہارے اجسام و اعضاء ہر طرف بکھر کیوں نہ گئے ہوں۔