قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نوح یقیناً وہ تیرے گھرانے سے نہیں ہے (١) اس کے کام بالکل ہی ناشائستہ ہیں (٢) تجھے ہرگز وہ چیز نہ مانگنی چاہیے جس کا تجھے مطلقا علم نہ ہو (٣) میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ تو جاہلوں میں سے اپنا شمار کرانے سے باز رہے (٤)۔
(34) اللہ تعالیٰ نے پھر نوح کو اپنا حتمی فیصلہ بتا دیا کہ اے نوح ! وہ ایمان نہیں لائے گا، اس لیے کہ وہ آپ کے گھر والوں میں سے نہیں ہے، آپ کے گھر والے تو دین و شریعت کے پابند اور اہل صلاح ہیں اور وہ صالح نہیں ہے، اس لیے وہ طوفان سے نہیں بچے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو تنبیہ کی کہ جس مقصد کے پورے طور پر صائب ہونے کا آپ کو علم نہ ہو اس کا اللہ سے سوال نہ کیجیے، اس لیے کہ ایسا کرنا نادانوں کا شیوہ ہوتا ہے، علماء نے اسی سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس بات کے مطابق شرع ہونے کا آدمی کو علم نہ ہو اس کی دعا نہیں کرنی چاہیے۔