سورة البقرة - آیت 144

قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ہم آپ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب آپ کو ہم اس قبلہ کی طرف متوجہ کریں گے جس سے آپ خوش ہوجائیں آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں۔ اہل کتاب کو اس بات کے اللہ کی طرف سے برحق ہونے کا قطعی علم ہے (١) اور اللہ تعالیٰ ان اعمال سے غافل نہیں جو یہ کرتے ہیں۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

211: یہ آیت اگرچہ تلاوت کے اعتبار سے متاخر ہے، لیکن معنی کے اعتبار سے متقدم ہے، اس لیے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم لم) مدینہ منورہ آنے کے بعد اللہ کے حکم کے مطابق بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے اور تمنا کرتے رہے کہ کاش ان کا قبلہ مسجد حرام ہوجاتا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تمنا پوری ہوئی۔ 212: مسجد حرام سے اس طرح اشارہ ہے کہ جہت کعبہ کی طرف رخ کرنا واجب ہے، نہ کہ خاص کعبہ کیطرف 213: یعنی بحر و بر میں جہاں بھی رہو، نماز میں اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کرو، اور خطاب خاص کے بعد خطاب عام سے مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ یہ حکم تمام مسلمانوں کے لیے عام، اور یہ کہ مسلمان دنیا کے جس گوشے میں بھی ہوگا، نماز میں رخ کعبہ کی طرف کرے گا۔ 214: یہود اپنے انبیاء کی تصریحات کے ذریعہ جو ان کی کتابوں میں موجود تھیں، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کی امت کی صفات کو اچھی طرح جانتے تے، یہ بھی جانتے کہ دین اسلام جو انسانیت کی ہدایت کے لیے آخری دین ہوگا، وہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کی امت کا دین ہوگا، اور ان صفات محمدیہ کے ضمن میں یہ بھی پڑھتے تھے کہ خاتم النبیین کا قبلہ کعبہ ہوگا، لیکن حسد و عناد کی وجہ سے جہاں انہوں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی دوسری صفات کا انکار کیا، وہاں کعبہ کے قبلہ ہونے کا بھی انکار کیا، اسی لیے اللہ نے انہیں دھمکی دی کہ اللہ ان کے کرتوتوں سے غافل نہیں ہے۔