وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ
اور کشتی ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے تیار کر (١) اور ظالموں کے بارے میں ہم سے کوئی بات چیت نہ کر وہ پانی میں ڈبو دیئے جانے والے ہیں (٢)
(26) جب عذاب کا آنا یقینی ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو کشتی بنانے کا حکم دیا اور اس کی تعلیم دی، تاکہ وہ اور ان کے ماننے والے مسلمان طوفان سے بچ سکیں، اور کافروں کی نجات کے لیے شفاعت کرنے سے منع فرما دیا، اس لیے کہ ان کے بارے میں اللہ کا فیصلہ صادر ہوچکا تھا کہ انہیں طوفان کی نذر ہوجانا ہے۔ صاحب فتح البیان کہتے ہیں کہ اعین عین کی جمع تعظیم اور مبالغہ کے لیے استعمال کیا گیا ہے، نہ کہ کثرت کے لیے، اور عین یعنی آنکھ بھی اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے جس کی کیفیت ہم نہیں جانتے ہیں، لیکن اس پر ایمان لانا واجب ہے۔