وَيَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۚ وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ إِنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ وَلَٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ
میری قوم والو! میں تم سے اس پر کوئی مال نہیں مانگتا (١) میرا ثواب تو صرف اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے نہ میں ایمان داروں کو اپنے پاس سے نکال سکتا ہوں (٢) انھیں اپنے رب سے ملنا ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جہالت کر رہے ہو (٣)۔
(21) نوح (علیہ السلام) نے ان سے یہ بھی کہا کہ میں دعوت و تبلیغ کے کام پر تم سے کوئی معاوضہ بھی تو نہیں مانگتا ہوں کہ تمہیں شبہ ہو کہ میں دنیا طلبی کے لیے ایسا کر رہا ہوں، اور تم جو میرے پیروکاروں کو گھٹیا کہتے ہو، اور مجھ سے مطالبہ کرتے ہو کہ میں انہیں اپنے پاس سے بھگا دوں تاکہ تم لوگ آکر میری بات سنو، تو میں ایسا بھی نہیں کروں گا، اس لیے کہ ایمان لانے کے بعد اللہ کے نزدیک ان کا مقام بلند ہوگیا ہے، اور جب وہ اللہ سے ملیں گے تو مجھ سے جھگڑیں گے کہ اے رب ! انہوں نے ہمیں اپنی مجلس سے نکال دیا تھا، اے میری قوم کے لوگو ! حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ نہایت ہی نادان ہو، جبھی تو سوچتے ہو کہ اگر ایمان لے آؤ گے تو ہمارے کمزور و ضعیف پیروکاروں کے برابر ہوجاؤ گے۔ اے لوگو ! میں تمہیں دوبارہ بتائے دیتا ہوں کہ اگر میں نے ان کمزور مسلمانوں کو اپنی مجلس سے نکال دیا، تو مجھے اللہ کے عقاب سے کوئی نہیں بچا سکے گا، اس لیے کہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے کے بعد اللہ کے نزدیک ان کا مقام بلند ہوگیا ہے، اور انہیں صرف اس لیے بھگا دینا کہ وہ غریب اور کمزور ہیں سراسر ظلم ہوگا۔