وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَن لَّمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ ۚ قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ
اور ان کو وہ دن یاد دلائیے جس میں اللہ ان کو (اپنے حضور) جمع کرے گا (تو ان کو ایسا محسوس ہوگا) کہ گویا وہ (دنیا میں) سارے دن کی ایک آدھ گھڑی رہے ہونگے (١) اور آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے کو ٹھہرے ہوں (٢)۔ واقعی خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے پاس جانے کو جھٹلایا اور وہ ہدایت پانے والے نہ تھے۔
(36) اس آیت کریمہ میں قیامت کی ہولناکیوں کی منظر کشی کی گئی ہے، کہ جب لوگ اپنی قبروں سے نکل کر میدان محشر میں جمع ہوں گے، تو مارے دہشت کے دنیا کی لذتوں کو بھول جائیں گے اور کہیں گے کہ ہم تو بہت تھوڑی دیر دنیا میں رہے تھے، اور دنیا میں جتنے لوگ ایک دوسرے کو جانتے پہچانتے تھے وہ سبھی وہاں بھی ایک دوسرے کو پہچان لیں گے، لیکن کچھ ہی دیر کے بعد ان میں سے ہر ایک اپنے حال میں مشغول ہوجائے گا، اور کوئی کسی میں دلچسپی نہیں لے گا، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جو لوگ یوم آخرت کی تکذیب کرتے ہیں، ان کا خسارہ بڑا خسارہ ہے، اور وہ کبھی بھی راہ ہدایت پر گامزن نہیں ہوسکتے ہیں، اس لیے کہ بعث بعد الموت اور آخرت پر ایمان ہی راہ راست پر چلنے کا بڑا سبب ہے۔