وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ ۖ أَنتُم بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ
اور اگر آپ کو جھٹلاتے رہیں تو یہ کہہ دیجئے کہ میرے لئے میرا عمل اور تمہارے لئے تمہارا عمل، تم میرے عمل سے بری ہو اور میں تمہارے عمل سے بری ہوں (١)۔
(35) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو حکم دیا کہ اگر مشرکین عرب آپ کی تکذیب پر مصر رہیں تو ان سے اعلان برات کردیجیے، اس لیے کہ آپ نے ان کے لیے کوئی عذر باقی نہیں چھوڑا ہے۔ آیات (41، 42، 43) میں بتایا گیا ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے، ان سے ایمان کی توقع نہیں کی جاسکتی، جب آپ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو وہ بظاہر سنتے تو ہیں، لیکن اس سے کوئی استفادہ نہیں کرتے، اس لیے کہ وہ بہرے ہیں اور عقل سے بھی محروم ہیں، اور آپ کی طرف وہ بظاہر دیکھتے بھی ہیں، لیکن اس سے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، اس لیے کہ وہ بصارت اور نور بصیرت دونوں سے محروم ہیں۔