سورة یونس - آیت 3

إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بلا شبہ تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کردیا پھر عرش قائم ہوا (١) وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے (٢) اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے والا نہیں (٣) ایسا اللہ تمہارا رب ہے سو تم اس کی عبادت کرو (٤) کیا تم پھر بھی نصیحت نہیں پکڑتے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(3) مشرکین قریش کے تعجب کی تردید ہے کہ جو ذات باری تعالیٰ ایسی عظیم ترین قدرتوں کا مالک ہو جن کے تصور و ادراک سے عقلیں عاجز ہوں، کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے انہی میں سے ایک رسول بھیج دے؟ اس آیت کی تفسیر تک سورۃ اعراف آیت (45) میں گزر چکی ہے، امام بخاری نے اپنی کتاب الصحیح میں کے مسئلہ میں جہمیہ پر رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ استوی کا معنی ابو العالیہ نے ارتفع اور مجاہد نے علا کیا ہے، یعنی استوا کی بغیر کوئی مثال اور بغیر کوئی کیفیت بیان کیے ہوئے، اس کے بعد لکھا ہے کہ عرش وہ جسم ہے جو تمام کائنات کو محیط ہے اور تمام مخلوقات سے عظیم تر ہے، اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام مخلوقات کی دیکھ بھال کرتا ہے، ان کے لیے اپنے اوامر صادر فرماتا ہے، اور اپنی معلوم حکمتوں کے مطابق ان میں تصرف کرتا ہے۔ (4) مشرکین مکہ کے معروف عقیدہ باطلہ کی تردید ہے کہ ان کے اصنام اللہ کے یہاں ان کے سفارشی بنیں گے، اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے : کہ اس کی اجازت کے بغیر کون اس کی جناب میں سفارش کرسکتا ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ آیت کا یہ حصہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ تنہا اللہ کی ذات تمام امور دو جہاں کا مختار کامل ہے۔ آسمانوں اور زمین میں ایک پتہ بھی اس کی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرسکتا۔ (5) وہی ذات واحد جو مذکورہ بالا عظیم قدرتوں کا مالک ہے، وہی اللہ ہے اور وہی تمہارا رب ہے، اس لئے تم لوگ اسی کی عبادت کرو، اور ان بے جان بتوں، پتھروں، درختوں اور جمادات کی عبادت نہ کرو جو نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں، اور نہ نفع پہنچا سکتے ہیں، نہ نقصان۔