سورة التوبہ - آیت 122

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور مسلمانوں کو یہ نہ چاہیے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وہ ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وہ ڈر جائیں (١)۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(97) جب اسی سورت کی آیت کریمہ (41) نازل ہوئی جس میں تمام مسلمانوں کو جہاد میں نکلنے کی ترغیب دلائی گئی اور وہ آیتیں بھی نازل ہوئیں جن میں غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونے والوں کو شدید عتاب کیا گیا، تو عام صحابہ نے سمجھا کہ جہاد کے لیے بہرحال تمام لوگوں کو نکلنا ہے، اور کسی حال میں پیچھے نہیں رہنا ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی کہ جہاد کے لیے نکلنے کا حکم عام مدنی زندگی کے آغاز میں تھا جب مسلمانوں کی تعداد کم تھی، اب مسلمانوں کی تعداد اچھی خاصی ہوگئی ہے، اس لئیے مصحلت کا تقاضا یہ ہے کہ مدینہ اور دیگر مسلمان بستیوں کو خالی کر کے سبھی لوگ نہ چلے جائیں، بلکہ ہر بڑی جماعت سے ایک گروہ جہاد کے لیے نکلے، جن سے جہاد کی ضرورت پوری ہو، اور کچھ لوگ اپنے شہر اور بستی میں بھی رہیں تاکہ مجاہدین کے گھر والوں کی دیکھ بھال کریں، ان کی ضرورتیں پوری کریں اور شہر اور بستی کی بھی نگرانی کرتے رہیں، اور جو لوگ رسول اللہ کے ساتھ جہاد کے لیے جائیں وہ جہاد کی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ ان کی صحبت سے علمی فائدہ اٹھائیں، قرآن و سنت کا علم حاصل کرتے رہیں اور جب اپنی اپنی بستیوں اور شہروں میں واپس پہنچیں تو جو کچھ اس سفر میں رسول اللہ سے سیکھا ہے، باقی مانندہ لوگوں کو سکھلائیں۔