سورة التوبہ - آیت 120

مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

مدینہ کے رہنے والوں کو اور جو دیہاتی ان کے گردو پیش ہیں ان کو یہ زیبا نہیں تھا کہ رسول اللہ کو چھوڑ کر پیچھے رہ جائیں (١) اور نہ یہ کہ اپنی جان کو ان کی جان سے عزیز سمجھیں (٢) یہ اس سبب سے کہ (٣) ان کو اللہ کی راہ میں جو پیاس لگی اور جو تھکان پہنچی اور جو بھوک لگی اور جو کسی ایسی جگہ چلے جو کفار کے لئے موجب غیظ ہوا ہو (٤) اور دشمنوں کی جو خبر لی (٥) ان سب پر ان کا (ایک ایک) نیک کام لکھا گیا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ مخلصین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(95) نبی کریم کے ساتھ غزوہ میں نکلنے کی مزید تاکید کی گئی ہے اور ان لوگوں کو عتاب کیا گیا ہے جو غزوہ تبوک میں شریک نہیں تھے، مدینہ کے اردگرد رہنے والے بادیہ نشینوں سے مراد مزینہ، جہینہ، اشجع، اسلم اور غفار وغیرہ قبائل ہیں، ان قبائل کو خصوصی طور پر اس لیے عتاب کیا گیا کہ انہیں غزوہ کے لیے روانگی کا حکم نبوی پہنچ چکا تھا، اور اس لیے بھی کہ ایمان صادق اور قرب و جوار کا تقاضا تھا کہ رسول اللہ کا ساتھ دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتے، اور اپنی جان دے کر ان کی جان کی حفاظت کرتے، اور ہر قدم پر اور ہر تکلیف پر جو انہیں اس راہ میں پہنچتی اور اللہ کی راہ میں ہر خرچ کے عوض اجر وثواب حاصل کرتے۔