لَّقَد تَّابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین اور انصار کے حال پر بھی جنہوں نے ایسی تنگی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا (١) اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل ہو چلا تھا پھر اللہ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان سب پر بہت ہی شفیق مہربان ہے۔
(94) اوپر بتایا جاچکا ہے کہ غزوہ تبوک سے کچھ ایسے لوگ بھی پیچھے رہ گئے تھے جو مخلص مسلمان تھے، لیکن سستی کی وجہ سے نبی کریم کے ساتھ نہ جاسکے تھے، جب منافقین کے بارے میں قرآن کریم کی آیتیں نازل ہونے لگیں تو انہیں اپنی غلطی کا شدید احساس ہوا، اسی لیے ان میں سے کچھ نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ دیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا، اور ان مخلص مسلمانوں میں سے تین حضرات نے رسول اللہ کے سامنے جاکر اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا اور منافقین کی طرح جھوٹا عذر نہیں پیش کیا، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں سے نہیں باندھا، اور اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کردیا، وہ تینوں کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور ہر ارہ بن الربیع تھے، ان تینوں حضرات کو رسول اللہ نے کہا کہ تمہارا فیصلہ اللہ کرے گا، اور تمام مسلمان مدینہ کو ان سے بات کرنے سے روک دیا، اور جب چالیس دن گزر گئے تو انہیں رسول اللہ کا پیغام ملا کہ وہ اپنی بیویوں سے بھی الگ ہوجائیں، بالآخر پچاس دنوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی، اس پچاس دن کی مدت میں وہ تینوں جن ذہنی پریشانیوں سے گزرے، اور زمین اپنی ہزار وسعت کے باوجود جس طرح ان پر تنگ ہوگئی، انہی احوال و کوائف کی طرف آیت (118) میں اشارہ کیا گیا ہے، اور انہی کو امام احمد اور بخاری و مسلم نے پوری تفصیل کے ساتھ کعب بن مالک کی زبانی روایت کی ہے۔ ان حضرات کے قبول توبہ کے ذکر سے پہلے نبی کریم اور مہاجرین و انصار کے قبول توبہ کا ذکر انہیں یہ یقین دلانے کے لیے کیا گیا کہ ان کی توبہ قبول کرلی گئی، جس طرح نبی کریم اور ان بڑے صحابہ کرام کی توبہ قبول کرلی گئی، اور وہ لوگ بھی اللہ کے مقبول بندوں میں شامل کرلیے گئے، اور یہ کہ اللہ کا ہر بندہ چاہے وہ نبی ہو یا ولی، ہر دم اور ہر حال میں توبہ و استغفار کا محتاج ہے، اور یہ کہ توبہ کرتے رہنا انبیاء و صالحین کی صفت ہے۔ آیت (117) میں سے مراد غزوہ تبوک کا سفر ہے، ابن عرفہ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے جیش کو جیش العسرۃ (لشکر تنگ حالی) کہا گیا، اس لیے کہ نبی کریم نے اس فوج کو اس وقت سفر کا حکم دیا تھا جب صحابہ شدید تنگ حالی کے دور سے گزر رہے تھے، نہ سواری تھی نہ زاد سفر اور نہ پانی، سخت گرمی اور قحط سالی کا زمانہ تھا۔ اس واقعہ سے مسلمانوں کو بہت سی نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں، سب سے بڑی نصیحت یہ ملتی ہے کہ سچائی میں ہر خیر ہے اور کذب بیانی دنیا و آخرت کی تمام ناکامیوں کی اساس ہے جن منافقین نے رسول اللہ کے سامنے کذب بیانی سے کام لیا، اللہ تعالیٰ نے ان کا پردہ فاش کیا، اور آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم بتایا، اور ان تینوں حضرات نے جرائم ایمانی سے کام لیتے ہوئے سچائی کو اپنایا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی، اور اس کا اعلان رہتی دنیا تک کے لیے قرآن کریم میں کردیا۔ (آیت 119) میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ عبداللہ بن مسعود نے اس آیت کی تلاوت کی اور کہا کہ جھوٹ بولنے کی اجازت کسی کے لیے کسی بھی حال میں نہیں ہے۔ صحیحین میں عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے، وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔