يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ
اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ چلو اللہ کے راستے میں کوچ کرو تو تم زمین سے لگے جاتے ہو۔ کیا تم آخرت کے عوض دنیا کی زندگانی پر ریجھ گئے ہو۔ سنو! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں کچھ یونہی سی ہے۔
(32) اس سورت کی ابتدا میں بتایا جا چکا ہے کہ اس کے مرکزی مضامین میں سے ایک مضمون غزوہ تبوک اور اس کے متعلق حالات وواقعات اور احکام ہیں یہ آیات کریمہ غزوہ تبوک کے موقع سے نازل ہوئی تھیں اور ان میں ان منافقین اور ضیعف الا ایمان مسلمانوں کی زجر وتوبیخ کی گئی ہے جو اس جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ فتح مکہ کے ایک سال بعد رسول اللہ (ﷺ) کو اطلاع ملی کہ ہر قل شاہ روم مسلمانوں سے جنگ کی تیاری کر رہا ہے چنانچہ آپ (ﷺ) نے شوال 9 ھ میں مسلمانوں کو جنگی تیاری کا حکم دے دیا زمانہ سخت گرمی کا تھا پھلوں کے پکنے کا وقت تھا مسلمان عام تنگد ستی میں تھے لیکن پھر بھی مخلص مسلمانوں نے رسول اللہ (ﷺ) کی آواز پر لبیک کہا اور لشکر کی تیاری میں دامے درمے قدمے سخنے حصہ لیا اور جنگ کے لیے روا نہ ہوگئے ہر قل کو جب رسول اللہ (ﷺ) کے آنے کی خبر ملی تو پیچھے ہٹ گیا اور آپ (ﷺ) لشکر اسلام کے ساتھ تبوک کے مقام پر بیس دن تک قیام کرنے کے بعد واپس ہوئے اسی کو غزوہ تبوک کہا جاتا ہے اگرچہ جنگ نہیں ہوئی لیکن جیسا کہ سورت کی ابتدا میں بتایا گیا ہے کہ اس کے نتائج بہت ہی دور رس نکلے اس غزوہ میں بعض ضعیف الا یمان مسلمان اور بہت سے منافقین گرمی کی شدت کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے یہ آیتیں اسی پس منظر میں نازل ہوئی تھیں، آیت (38) میں دنیاوی مال ومتاع کی حقارت اور اخروی زند گی کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے، امام احمد اور مسلم نے روایت کی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا دنیا کی حیثیت آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہی ہے جیسے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈال کر نکالے الحدیث۔