يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ
جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس دن ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا رکھا تھا، پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو۔
(29) علماء اور عباد کے حالات بیان کرنے کے بعد آیت کے اس حصہ میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے جو سونا اور چاندی اکھٹا کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ جہنم کا درد ناک عذاب ان کا انتظار کررہا ہے اور یہ حکم عام ہے، اس میں یہود ونصاری کے وہ علماء اور عباد شامل ہیں جو سونا چاندی جمع کرتے تھے اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تھے اور وہ مسلمان بھی شامل ہیں جو اپنے مال کی زکاۃ نہیں ادا کرتے ہیں۔ ابو داؤد اور حاکم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام کو بڑی مشکل پیش آئی عمر بن خطاب (رض) نے کہا کہ میں تم لوگوں کی مشکل آسان کر تا ہوں اور جا کر رسول اللہ (ﷺ) سے کہا کہ آپ کے صحابہ کو اس آیت سے بڑی مشکل پیش آگئی ہے تو آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ نے زکاۃ اسی لیے فرض کیا ہے کہ تمہارے باقی مال کو پاک بنادے اور تمہارے مال میں قانون وراثت کو اسی لیے جاری کیا ہے تاکہ تمہارے بعد والوں کو مال ملے تو عمر (رض) نے اللہ اکبر کہا الحدیث اس لیے جہہور علماء کی رائے ہے کہ جس مال کی زکاۃ ادا کر دی جائے گی وہ کنز نہیں ہوگا۔ طبرانی اور بیہقی کی روایت ہے کہ نبی کر یم (ﷺ) نے فرمایا جس مال کی زکاۃ دے دی جائے اسے کنز نہیں کہا جائے گا ۔ ابن عمر (رض) کی رائے ہے اس آیت میں کنز پر جو وعید آئی ہے وہ زکاۃ کے حکم کے ذریعہ منسوخ ہوچکی ہے ان سے ایک موقوف حدیث بھی مروی ہے جس مال کی زکاۃ دے دی جائے چاہے وہ سات زمین کے نیچے ہو وہ کنز نہیں کہلائے گا لیکن جس مال کی زکاۃ نہ دی جائے اس پر بڑی وعید آئی ہے۔ صحیح مسلم میں ابو ہر یرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جو آدمی اپنے مال کی زکاۃ نہیں دیتا قیامت کے دن آگ کی تختیوں سے اس کا پہلو اس کی پیشانی اور اس کی پیٹھ داغی جائے گی الحدیث۔