أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِن دُونِ اللَّهِ وَلَا رَسُولِهِ وَلَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
کیا تم سمجھ بیٹھے ہو کہ تم چھوڑ دیئے جاؤ گے (١) حالانکہ اب تک اللہ نے تم میں سے انہیں ممتاز نہیں کیا جو مجاہد ہیں (٢) اور جنہوں نے اللہ کے اور رسول کے اور مومنوں کے سوا کسی کو ولی دوست نہیں بنایا (٣) اللہ خوب خبردار ہے جو تم کر رہے ہو (٤)۔
(14) اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم دینے کے بعد مسلمانوں سے بطور تاکید فرمایا : کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہیں ایسی آزمائش میں نہیں ڈالا جائے گا جس کے ذریعہ صادق وکاذب اور مؤمن اور منافق کے درمیان تمیز ہوجائے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جاننا چاہتا ہے جو اللہ کا حکم بلند کرنے کے لیے جہاد کرتے ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول اور مؤمنوں کے علاوہ کسی کا فرکو اپنا دوست نہیں بناتے، قرآن کریم کی کئی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ مشروعیت جہاد کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ اللہ کے فرمانبردار اور نافرمانبر داربندے پہچانے جائیں ،۔ سورۃ عنکبوت آیت (2) میں فرمایا ہے : اور سورۃ بقرہ آیت (214) میں فرمایا ہے : ان آیتوں میں یہی بات کہی گئی ہے کہ اللہ اپنے مؤمن بندوں کے ضرور آز ماتا ہے تاکہ مخلص وغیر مخلص مؤمن ومنافق اور صادق وکاذب میں فرق ہوسکے۔