أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
تم ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے کیوں تیار نہیں ہوتے (١) جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور پیغمبر کو جلا وطن کرنے کی فکر میں ہیں (٢) اور خود ہی اول بار انہوں نے تم سے چھیڑ کی ہے (٣) کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ ہی زیادہ مستحق ہے کہ تم اس کا ڈر رکھو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو۔
(12) مسلمانوں کو بار بار مشر کین مکہ کے خلاف ابھا راجا رہا ہے اور ان کے وہ اوصاف بیان کیے جارہے ہیں جنہیں سن کر مسلمانوں کا غیظ وغضب بھڑکے اور ان خلاف جنگ پر آمادہ ہوں۔ اللہ نے یہ وہی مشرکین ہیں جنہوں نے رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ کیے گئے اپنے معاہدہ کا پاس نہیں رکھا تھا اور اپنے حلیف بنی بکر کی خزاعہ کی خلاف مدد کی تھی جو رسول للہ (ﷺ) کے حلیف تھے اور جنہوں نے رسول اللہ (ﷺ) کو شہر مکہ سے نکالنے کی دارا لندوہ میں سازش کی تھی۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ لوگ اللہ کے رسول کا احترام کرتے اور آپ کا مقام پہچانتے، اور غزوہ بدر کے موقع سے قتال کی ابتدا انہی کی طرف سے ہوئی کہ تجارتی قافلہ کو بچانے کے لیے مکہ سے چلے تھے اور قافلہ بچ کر نکل بھی گیا لیکن انہوں نے کبر وغرو میں آکر مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی اور مقام حدیبیہ میں نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ کیے گئے معاہدہ صلح کو توڑ نے میں بھی پہل کی یہاں تک کہ رسول اللہ (ﷺ) کو ان کی سرکوبی کے لیے مکہ پر چڑھائی کرنی پڑی۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ ان مشر کین سے ڈر کر جہاد فی سبیل اللہ سے پہلو تہی نہ کرو اگر تم مؤمن ہو تو میرے عذاب اور میرے جبروت سے ڈرو۔