وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُونَ
اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے پھر اسے اپنی جائے امن تک پہنچا دے (١) یہ اس لئے کہ یہ لوگ بے علم ہیں۔
(7) اوپر کی آیت میں حکم عام تھا کہ چار ماہ کی مدت معاہدہ گذر جانے کے بعد جو مشرک بھی پکڑا جائے اور جس حال میں بھی قتل ہوا سے قتل کیا جائے اسی حکم کی تخصیص کی طور پر یہاں کہا جا رہا ہے کہ اگر کوئی مشرک مدت معاہدہ یا چار ماہ کی مدت گذر جانے کے بعد مسلمانوں سے امان چاہے تاکہ اسے قرآن کر یم سننے اور سمجھنے کا موقع ملے اور اسلام کا بغو مطالعہ کرسکے تو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اسے یہ موقع فراہم کیا جائے اس لیے کہ بہت ممکن ہے کہ اس کا کفر پر قائم رہنا جہالت اور اسلام کی خو بیوں کو نہ جاننے کی وجہ سے ہو یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی کا فر شخص نبی کریم (ﷺ) کے پاس طالب ہدایت یا پیغام رساں کی حیثیت سے آتا تھا تو آپ اسے امان دیتے تھے۔ صلح حدیبیہ کہ موقع سے قریش کے کئی افراد آپ کے پاس آئے جن میں عروہ بن مسعود کا نام زیادہ مشہور ہے انہوں نے آپ (ﷺ) کے ساتھ جب مسلمانوں کی عقیدت ومحبت کا مشاہدہ کیا تو بہت زیادہ متاثر ہوئے اور واپس جا کر کفار قریش کی محفلوں میں بیان کیا جس کا اثر یہ ہوا کہ اس کے بعد بہت سے کفار قریش نے اسلام قبول کرلیا۔ اگر مسلمانوں کے درمیان رہنے قرآن کریم سننے اور سمجھنے اور اسلام کا مطالعہ کرنے کے بعد مشرف باسلام ہوجاتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اسے اس کو امان کی جگہ پہنچا دیا جائے تاکہ کفار مسلمانوں کو خائن نہ کہیں۔ امام بخاری نے اپنی کتاب التاریخ میں اور نسائی نے سنن میں روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جس نے کسی آدمی کو پناہ دی اور پھر اسے قتل کردیا تو میں ایسے قاتل سے بری ہوں چاہے مقتول کافر ہو۔ اس کے دارالفکر پہنچ جانے کے بعد اگر مسلمان اس علاقہ پر حملہ کریں اور وہ مارا جائے تو مسلمان کو کو ئی گناہ لاحق نہی ہوگا۔