وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ
کافر آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ملک میں فتنہ ہوگا اور زبردست فساد ہوجائے گا (١)
(63) اس آیت میں مسلما نوں کو اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ وہ کافروں کو اپنا دوست بنائیں چاہے وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں اس لیے کہ کافر دوست کافر ہی ہوتا ہے، اسی آیت سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ مسلمان اور کافر ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے ہیں، بخاری نے اسامہ بن زید سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا دودین والے آپس میں وارث نہیں ہوں گے۔ (64) یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو دوست نہیں رکھیں گے اور کافروں سے قطع تعلق نہیں کریں گے تو بہت بڑے فتنے وفساد دکا دروازہ کھل جائے گا جو مسلمان کمزور ہوں گے وہ کافروں کا ساتھ مل جائیں گے اور ممکن ہے کہ مرتد ہوجائیں اور اگر مرتد نہ بھی ہوں تو بھی عقیدہ وعمل اور عادات واطوار میں کافروں کا اثر قبول کرلیں گے اسی طرح اگر مسلمان اس آیت کے بموجب آپس میں متحد ہوں گے تو کفار ان کے خلاف سازش کر کے ان پر حملہ آور ہوجائیں گے اور ان کے علاقوں پر قابض ہوجائیں گے اس کے بر عکس اگر آپس میں متحد رہیں گے تو ان کی قوت بڑھتی جائے گی اور دوسرے مذاہب کے لوگ دین اسلام میں داخل ہوتے جائیں گے اور فتنہ فساد کے بہت سے دروازے ازخود بند ہوتے چلے جائیں گے۔