سورة البقرة - آیت 116

وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ بَل لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ كُلٌّ لَّهُ قَانِتُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے، (نہیں بلکہ) وہ پاک ہے زمین اور آسمان کی تمام مخلوق اس کی ملکیت میں ہے اور ہر ایک اس کا فرماں بردار ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

170: اس آیت میں یہود و نصاری اور مشرکین عرب کی تکذیب کی گئی ہے، جنہوں نے عزیر و مسیح کو اللہ کا بیٹا تصور کیا، اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتایا، اللہ نے فرمایا کہ (سبحنہ) یعنی اللہ کی ذات ان باطل دعووں سے پاک ہے۔ آسمان و زمین کے درمیان جو کچھ ہے وہ سب اللہ کے مملوک اور بندے ہیں، اور اس کے حضور عجز و انکساری کے ساتھ جھکے ہوئے ہیں، بندوں میں سے کوئی اللہ کا بیٹا کیسے ہوسکتا ہے، اولاد تو دو متناسب ذاتوں کے ارتباط سے پیدا ہوتی ہے، اللہ کا کوئی شریک اور نظیر نہیں، اور نہ اس کی کوئی بیوی ہے، پھر اللہ کا بیٹا کیسے ہوسکتا ہے؟ صحیحین کی روایت ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا : اذیت کی باتیں سن کر اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں، لوگ اس کے لیے بیٹا بتاتے ہیں، پھر بھی وہ انہیں روزی دیتا ہے اور عافیت سے نوازتا ہے (قانتون) یعنی تمام مخلوق اس کے زیر تصرف ہے، اور اس کی عبادت میں لگی ہوئی ہے۔