مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
نبی کے ہاتھ میں قیدی نہیں چاہییں جب تک کہ ملک میں اچھی خون ریزی کی جنگ نہ ہوجائے۔ تم تو دنیا کے مال چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے (١) اور اللہ زور آور باحکمت ہے۔
(56) اس آیت کا تعلق معرکہ بدر کے بعد کے حالات سے ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے اس جنگ میں ستر (70) کفار قریش مارے گئے اور دوسرے ستر (70) قید کرلیے گئے تو سوال یہ پیدا ہوا کہ ان قیدیوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جائے؟ امام مسلم اور امام احمد نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم( ﷺ) نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا توعمر بن خطاب (رض) نے مشورہ دیا کہ انہیں قتل کردیا جائے ،، ابو بکر (رض) نے مشورہ دیا کہ فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے چنانچہ رسول اللہ (ﷺ) نے ابوبکر کی رائے پر عمل کیا اور فدیہ لے کر ان کو آزاد کریا۔ امام مسلم نے کتاب الجہاد میں ابن عباس (رض) سے بھی اسی طرح ایک غیر مرفوع حدیث روایت کی ہے جس کیے آخر میں آتا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) اور ابو بکر (رض) بیٹھے رورہے تھے کہ عمر (رض) پہنچے اور وجہ دریافت کی تو آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے کی وجہ سے مسلمانوں سے عذاب الہی اس درخت سے بھی زیادہ قریب ہوگیا تھا، اور ایک درخت کی طرف اشارہ کیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی جس میں قیدیوں سے فدیہ لینے کو اچھا نہیں بتایا گیا ہے اور کہا گیا کہ غزوہ بدر کے قیدیوں کا قتل کیا جا نا فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دینے سے زیادہ بہتر تھا اور آئندہ کے لیے نصیحت کی کہ ہونا تو یہ چاہئے کہ جب مسلمان کافروں پر غالب آئیں تو انہیں خوب قتل کریں تاکہ کافر سرنگوں ہو اسلام اور مسلمانوں کا رعب ودبدبہ کافروں کے دلوں پر بیٹھ جائے اس کے بعد بھی اگر میدان جنگ میں کچھ لوگ باقی رہ جائیں تو انہیں گرفتا کرلیا جائے، میدان بدر میں صحابہ کرام نے کفار کو اس امید میں بھی پابند سلاسل کیا تھا تاکہ ان سے مال لے کر انہیں آزاد کردیں گے، اور اس طرح مسلمانوں کی مالی زبوں حالی میں کچھ کمی آئے گی اسی کی طرف آیت میں اشارہ ہے کہ تم لوگوں نے دنیاوی فائدہ کے پیش نظر ایسا کیا حالانکہ اللہ تمہارے لیے آخرت کی بھلائی چاہتا ہے۔