إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں (١)
(2) اوپر والی آیت میں جن مؤمنین کا ذکر آیا ہے اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل دو آیتوں میں انہی کے اوصاف بیان فرمائے ہیں پہلی صفت یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا ذکر کسی بھی حیثیت سے آتا ہے تو عظمت وہیت باری تعالیٰ کے تصور سے ان پر رعب طاری ہوجاتا ہے، اور مارے خوف کے ان کے رونگٹے کھڑ ہوجاتے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم سے اللہ کی نافرمانی ہوگئی ہو اور اس کی گرفت میں آجائیں۔ ان کی دوسری صفت یہ ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت ہوتی ہے تو ان کے ایمان ویقین میں اضافہ ہوجاتا ہے، اور ان کے دلوں کو سکون واطمینان حاصل ہوتا ہے۔ یہ آیت اس بارے میں بالکل صریح ہے کہ مؤمن کا ایمان گھٹتا بڑھتا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الا یمان میں ابو عبیدہ القاسم بن سلام کے حوالہ سے ایک سو چھتیس علمائے کرام کے نام ذکر کئے ہیں جن کا عقیدہ تھا کہ ایمان گھٹتا بڑھتا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک ہزار سے زائد علماء سے ملا قات کی ان سب کا یہی عقیدہ تھا ائمہ کرام مالک، شافعی اور احمد رحمہم اللہ کا بھی یہی عقیدہ تھا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اس مسئلہ میں چوک ہوئی ہے ان کا خیال تھا کہ ایمان میں کمی زیادتی نہیں ہوتی ہے جو اس صریح آیت کے خلاف ہے۔ ان کی تیسری صفت یہ ہے کہ وہ ہر حال میں صرف اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں نہ غیر اللہ سے کو ئی امید رکھتے ہیں، نہ ہی ڈرتے ہیں اور نہ غیر اللہ کے حوالے اپنے معاملات کرتے ہیں۔