سورة الاعراف - آیت 204

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو (١)۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(133) اوپر کی آیت میں قرآن کریم کے فضائل وخصائص بیان کئے گئے کہ یہ کتاب عظیم دل کی آنکھوں کو کھولتی ہے اور اسے بصیرت عطا کرتی ہے، اور بھلائی کی طرف رہنمائی کرتی ہے، اور عذاب نار سے بچنے کا ذریعہ ہے، اسی مناسبت سے یہاں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہو تو اسے غور سے سنو، تاکہ اس کے معانی کو سمجھو اور اس میں جو پند ونصائح ہیں ان سے مستفید ہو سکو کفار قریش کی طرح نہ کرو جو اپنے ساتھیوں سے کہا کرتے تھے، کہ جب محمد قرآن پڑھنا شروع کرے تو تم لوگ اسے نہ سنو اور تشویش پیدا کرو تو کہ کوئی اس پر کان نہ دھرسکے۔ (فصلت :26) اس آیت کے ظاہری الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی تلاوت چاہے نماز میں ہو رہی ہو یا کسی اور وقت میں اسے غور سے سننا اور خاموشی اختیار کرنا واجب ہے، امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن جنبل کا یہی مسلک ہے، ان حضرات نے اس آیت کے علاہ صحیح مسلم کی انس، عائشہ اور ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جس میں آیا ہے کہ امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے جب تکبیر کہے تو تکبیر کہو، اور جب قرات کرے تو خاموش رہو، اور مسند احمد اور کتب سنن میں ابو ہریرہ (رض) سے مروی دوسری حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جس میں آیا ہے کہ نبی کریم (ﷺ) نے سلام پھیر نے کے بعد فرمایا کہ قرآن پڑھنے میں میرے ساتھ کیوں جھگڑا جاتا ہے، یعنی میں بھی پڑھتا ہوں اور تم لوگ بھی پڑھتے ہو۔ لیکن دوسری صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کر یم (ﷺ) نے جن پر قرآن کریم نازل ہوا سورۃ فاتحہ کی قرات کو اس حکم عام سے مستثنی قرار دیا ہے اور اس کا پڑھنا ہر مقتدی کے لیے واجب قرار دیا ہے، جیسا کہ ابو داؤد اور ترمذی نے عبادہ بن صامت (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) نے نماز سے سلام پھیرنے کے بعد پوچھا کہ کیا تم لوگ امام کے پیچھے پڑھتے ہو تو صحابہ نے کہا کہ ہاں اے اللہ کے رسول ! تو آپ نے فرمایا کہ ام القرآن فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھو اس لیے کہ جو سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی، ایک روایت میں ہے کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا جب میں جہری قرات کرو‏ں تو ام القرآن کے علاوہ کچھ نہ پڑھو، اسے ابوداؤد، نسائی اور دارقطنی نے روایت کی ہے، اور اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ ابن حبان نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے پوچھا کیا تم لوگ جب امام قرات کر رہا ہوتا ہے تو اس کے پیچھے پڑھتے ہو ؟ ایسا نہ کرو اور تمہیں سورۃ فاتحہ اپنے دل میں پڑھ لینا چاہیئے امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری نے اسی کو تر جیح دیا ہے اور ہر نماز میں چاہے سری ہو یا جہری سورۃ فاتحہ کی قرات کو واجب قرار دیا ہے، دیگر محدثین کا بھی یہی مسلک رہا ہے حیرت ہے کہ امام احمد بن جنبل رحمہ اللہ سے جو اپنے زمانے میں محد ثین کے امام تھے کیسے چوک ہوگئی اور کیوں ان احادیث کو نظر انداز کر گئے سبحان من لاینسی یہ بحث سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں گذر چکی ہے اسے دوبارہ دیکھ لینا مفید رہے گا۔