وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ
اور ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنایئے کہ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں پھر وہ ان سے نکل گیا، پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا سو وہ گمراہ لوگوں میں شامل ہوگیا (١)
(107) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے آدمی کی خبر دی ہے جسے اللہ نے آسمانی کتاب کا علم دیا تھا، جس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اس میں موجود دلائل وبراہین سے استفادہ کر کے اللہ سے اپنا رشتہ استوار کرتا، اور اصلاح وتقوی کی زندگی اختیار کرتا، لیکن معاملہ برعکس رہا، اس نے دنیاوی عارضی مفاد کی خاطر اللہ کا انکار کردیا اور اس کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا، اور دامن جھاڑ کر اس سے ایسا الگ ہوگیا جیسے کوئی سانپ اپنے چمڑے کے خول سے نکل کر باہر چلا جاتا ہے، اور جب وہ اس حال کو پہنچ گیا تع شیطان نے اسے جا لیا اور اسے اپنا دوست اور ساتھے بنا لیا ، اور اسے ضلالت اور گمراہی کےگھٹا ٹوپ اندھیرے میں پہنچا دیا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ہم چاہتے تو اس آسمانی کتاب کی بدولت اسے اوج ثریا پر پہنچا دیتے لیکن وہ اس کا اہل نہیں تھا، اس نے دنیاوی فائدوں کو تر جیح دیا اور اپنے نفس کا غلام بنارہا، اور دنیا اس کا منتہائے مقصود رہی کبھی قانع نہیں ہوا ایک فائدہ حاصل ہوا تو دوسرے کے پیچھے دوڑ نے لگا، اور اسی حصول دنیا میں حیران اور پریشان رہا اسے کبھی سکون نہ ملا اس کتے کی طرح جو ہر حال میں زبان نکالے ہانپتا رہتا ہے، چاہے وہ دوڑ رہا ہو یا بیٹھا ہو، تو جو شخص آسمانی کتاب کا علم رکھتے ہوئے اس ایمان وعمل صالح کا فائدہ نہیں اٹھاتا، اسے پس پشت ڈال دیتا ہے اور کفر کی راہ اختیار کرتا ہے اس کی مثال ہر دور میں سانپ کی ہے جو اپنے چمڑے کے خول سے نکل کر باہر چلا جاتا ہے اور اس کتے کی ہے جو ہر حال میں زبان نکالتے ہا نپتا رہتا ہے۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) کی روایت کے مطابق جسے امام شوکانی نے کتب احادیث کے دس حوالوں سے نقل کیا ہے یہ آیت بلعم بن عور کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں بنی اسرائیل کا ایک فرد تھا اور جو تورات کا علم رکھتا تھا، لیکن دنیاوی مصالح کی خاطر اس کا انکار کردیا اور کفر کی راہ اختیار کرلی۔ ایک دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت امیہ بن ابی الصلت کے بارے میں نازل ہوئی تھی جسے آسمانی کتابوں کا علم تھا اور جانتا تھا کہ عنقریب ہی ایک رسول آنے والا ہے اور امید کرتا تھا کہ وہ خود ہی رسول ہوگا اسی لیے جب نبی (ﷺ) مبعوث ہوئے تو اس نے ایمان لانے سے انکار کردیا اور کفر کی حالت میں مرگیا۔ ایک تیسرا قول یہ ہے کہ آیت ابو عامر کے بارے میں نازل ہوئی تھی جس نے زمانہ جاہلیت میں رہبا نیت کی زندگی اختیار کرلی تھی لیکن اسلام آنے کے بعد شام چلا گیا اور قیصر کو رسول اللہ (ﷺ) کے خلاف بھڑکاتا رہا اور وہیں مرگیا، اسی نے منافقین کو مدینہ منورہ میں مسجد ضرار بنانے پر ابھارا تھا۔ بہر حال آیت کے نزول کا سبب جو بھی ہو اس کا حکم عام ہے اور اس میں بہت بڑی وعید ہے ان علمائے سو کے لیے جو دنیا کی عارضی لذتوں کی خاطر آخرت کو فراموش کردیتے ہیں، اور دنیاہی کے پیچھے لگ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ تمام علمائے اسلام کو اس آیت کا مصداق بننے سے محفوظ رکھے۔