وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَٰذَا غَافِلِينَ
اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں۔ (١) تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے۔
(106) مذکورہ بالا آیت کے اختتام پر موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے واقعات کا تسلسل ختم ہوجاتا ہے، اور اب روئے سخن عام انسا نوں اور بالخصوص نبی کریم (ﷺ) کے زمانے کے لوگوں کی طرف ہے اور انہیں بتایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف بنی اسرائیل سے ہی عہد نہیں لیا تھا بلکہ یہ عہد تو اس نے ہر فرد سے لیا ہوا ہے، جس کی تفصیل آئندہ آیت میں آرہی ہے۔ آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی تمام اولاد کو (جو قیامت تک پیدا ہوگی) ازل میں ان کے آباء کی پیٹھوں سے نکالا اور ان سے اس بات کی گواہی لی کہ وہی ان کا رب اور ان کا خالق ومالک ہے، شوکانی نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ صحیح مرفوع اور موقوف احادیث سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ اللہ نے روحوں کو جسموں سے پہلے پیدا کیا اور شہادت انہی روحوں نے دی۔ کچھ دوسرے مفسرین نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ اللہ نے ازل میں ان سب کو اکٹھا نہیں کیا تھا بلکہ ابن آدم کی تخلیق اس بات کی گوا ہی دیتی ہے کہ ان کا خالق اللہ ہے، آیت میں مثال کے ذریعہ اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے اس قول کے مطابق کا مفہوم یہ ہوگا کہ انسان کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی کمال کاریگری کے جو آثار ہیں، ان ہی کے پیش نظر گویا انسانوں نے کہا ہے کہ ہاں ہے ہمارے اللہ ! توہی ہمارا رب ہے، اس لیے کہ شہادت کبھی زبان قال سے ادا ہوتی ہے اور کبھی زبان حال سے اسی بات کونبی کریم (ﷺ) نے صحیح احادیث میں اس طرح بیان کیا ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کو پیدا ہی ایسا کیا ہےکہ ان کی فطرت اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ ان کا خالق اللہ ہے اور اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، ان کی فطرت میں یہ بات ودیعت کردی گئی ہے کہ وہ پکار پکار کر کہ رہے ہیں اے اللہ ! توہی ہمارا رب ہے ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں اور قیامت کے دن بھی وہ اس کا انکارنہیں کرسکیں گے۔ حافظ ابن کثیر نے تقریبا اسی رائے کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ سلف وخلف میں سے ایک جماعت کا یہی کہنا ہے کہ بنی آدم کی ذریت کو گواہ بنانے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے ان کو اپنی توحید کی فطرت پر پیدا کیا ہے، اور جو روایتیں یہ بتاتی ہیں کہ اللہ آدم کی ذریت کو ان کی پیٹھ سے نکالا، اور ان سے بات کی اور انہوں نے جواب دیا تو اس طرح کی روایتیں صحیح نہیں ہیں، اور اگر بعض صحیح ہیں تو ان کی عبارتیں آیت کے الفاظ سے ملتی جلتی ہیں، جن سے حتمی طور پر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اللہ نے واقعی آدم کی ذریت کو ان کی پیٹھ سے نکالا تھا اور تیسری بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر روایتیں ابن عباس پر موقوف ہیں۔ یعنی نبی کریم (ﷺ) سے ثابت نہیں ہیں۔ اس فطری عہد کے بعد اب کوئی فرد بشر قیامت کے دن نہیں کہہ سکے گا کہ ہمیں تو پیغام پہنچا ہی نہیں تھا، یا یہ کہ ہم تو اپنے آباء واجداد کے نقش قدم پر چلتے رہے، اس لیے ہمارا مواخذہ کیوں ہو رہا ہے، جب ایک فرد بشر کی فطرت پکارپکار کر توحید باری تعالیٰ کی گو اہی دے رہی ہے اور اللہ کے سامنے نہ جھکنے یا اس کے علاوہ غیروں کے سامنے جھکنے کا انکار کررہی ہے، تو قیامت کے دن کسی مشرک و کافر کے پاس کون سا عذر باقی رہے گا، وباللہ التوفیق۔