الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں (١) وہ ان کو نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں (٢) اور پاکیزہ چیزوں کو حلال بناتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے (٣) ان کو دور کرتے ہیں۔ سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں (١)
(90) کلام کا رخ ان بنی اسرائیل کی طرف موڑ دیا گیا ہے جو نبی کریم (ﷺ) کے زمانے میں تھے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت خاصہ کو پانے کے لیے جو شرائط موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں تھیں وہی اب بھی ہیں لیکن ان تمام شرائط کی بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ نبی کر یم (ﷺ) پر ایمان لے آئیں اور ان کی اتباع کریں اور یہ بنی اسرائیل انہیں خوب اچھی طرح پہچا نتے ہیں اس لیے کہ ان کے نام اور انکی صفات تورات وانجیل میں بیان کردی گئی ہیں۔ نبی کریم (ﷺ) کی صفات تمام آسمانی کتابوں میں بیان کی گئی تھیں، اور تمام انبیاء کرام نے اپنی امتوں کو آپ (ﷺ) کی بعثت کی خوشخبری دی تھی، اور انہیں آپ (ﷺ) کی اتباع کا حکم دیا تھا، تورات وانجیل میں بالخصوص وہ صفات باقی رہیں اور ان کے عالموں کو ان کا خوب علم تھام کعب الا حبار وغیرہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کی جو صفات قرآن کریم میں بیان کی گئیں ہیں وہی صفات تورات میں پائی جاتی تھیں، جیسا کہ تفسیر طبری اور مسند احمد میں مروی عطاء بن یسار کی روایت سے معلوم ہوتا ہے، یہاں نبی کریم (ﷺ) کی ایک صفت بیان کی گئی ہے اس لیے کہ آپ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، اور یہ آپ کے لیے ایک معجزہ اور کمال فخر کی بات تھی کہ لکھنا پڑھنا نہ جاننے کے باجود قرآن کو اللہ کی طرف سے بذریعہ وحی حاصل کیا اور آپ کا سینہ علوم وحکم کے خزانوں سے بھرا ہوا تھا۔ گذشتہ آسمانی کتابوں میں نبی کریم (ﷺ) کی یہ صفت بھی بیان کی گئی تھی کہ آپ (ﷺ) بھلائی کا حکم دیں گے برائی سے روکیں گے اور اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو لوگوں کے لیے حلال کریں گے جو پہلے ان پر حرام تھیں، جیسے چربی اور وہ جانور جنہیں مشرکین نے اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا اور خرید وفروخت اور تجارت کی وہ تمام قسمیں جو حرام خوری سے خالی ہوں اور گندگی اور نقصان دہ چیزوں کو ان کے اوپر حرام کریں گے جیسے سور کا گوشت سود اور وہ تمام محرمات جنہیں اللہ نے حرام بنایا ہے، آپ (ﷺ) کی صفت ہوگی کہ ان کا دین آسان ہوگا، جیسا کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا، کہ مجھے دعوت توحید اور آسان دین دے کر بھیجا گیا ہے، (مسند احمد) اور جب آپ (ﷺ) نے معاذ اور ابو موسیٰ اشعری (رض) کو دعوت اسلام کے لیے یمن بھیجا تو فرمایا کہ تم دونوں لوگوں کو خو شخبری دینا، دین سے نفرت نہ دلانا، ان کے لیے آسانی پیدا کرنا انہیں سختی اور پریشانی میں نہ ڈالنا (بخاری) چنانچہ اسلام نے بہت سے مشکل اور تکلیف دہ احکام کو منسوخ کردیا ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے دین میں پائےجاتے تھے ، جیسے جان کے بدلے جان (دیت یا معافی نہیں تھی) سینچر کے دن کام کرنا حرام تھا ہر ساتویں سال کھیتی حرام تھی اگر کوئی اپنے والدین کو مارتا یا گالی دیتا تو اسے قتل کردیا جاتا وغیرہ۔ (91) اللہ تعالیٰ کا یہ کریمانہ وعدہ ہے کہ جو اہل کتاب رسول اللہ (ﷺ) پر ایمان لائیں گے ان کی تعظیم وتوقیر کریں گے ان کی مدد کریں گے اور قرآن کریم کی اتباع کریں گے اللہ تعالیٰ انہیں دنیا وآخرت میں فائزالمرام بنائے گا یہاں قرآن کو "نور"سے اس لیے تعبیر کیا گیا کہ اس کی عالمتاب روشنی خود اس کے معجزہ الہی ہونے کی روشن دلیل ہے اور اس لیے بھی کہ وہ رہتی دنیا تک بنی نوع انسان کے لیے روشنی کامیناررہے گا، اور زند گی کے ہر گوشے میں اس کی رہنمائی کرتا رہے گا۔