وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ۚ وَقَالَ مُوسَىٰ لِأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور دس رات مزید سے ان تیس راتوں کو پورا کیا۔ سو ان کے پروردگار کا وقت پورے چالیس رات کا ہوگیا (١) اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) سے کہا کہ میرے بعد ان کا انتظام رکھنا اور اصلاح کرتے رہنا اور بد نظم لوگوں کی رائے پر عمل مت کرنا (٢)
(73) بنی اسرائیل جب طور سینا کے قریب ایک جگہ آباد ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایک شریعت نازل کرنی چاہی تاکہ وہ اس کے مطابق اپنی زندگی اللہ کی اطاعت وبندگی میں گذارسکیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ طور کی چوٹی پر جا کر چالیس دن تک عبادت وبندگی میں گذاریں تاکہ وحی الہی کی عظیم ذمہ داری اٹھانے کے قابل بن سکیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ چالیس دن کی مدت ذوالقعدہ کے تیس دن اور ذی الحجہ کے دس دن تھے ابن عباس وغیرہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) سے چالیسویں دن یعنی دسویں ذی الحجہ کو ہم کلام ہوا تھا، موسیٰ (علیہ السلام) نے کوہ طور کی جانب روانگی سے قبل بنی اسرائیل کی تعلیم وتربیت کے لیے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو اپنا خلیفہ بنا دیا، اور انہیں ان کے ساتھ ہمدردی اور اصلاح واخلاص کی نصیحت کی، اور اہل فساد ومعاصی کی اتباع کرنے سے منع کیا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ انہوں نے یہ بات شدت احتیاط کی وجہ سے کہی تھی ورنہ ہارون خود اللہ کے نبی تھے، ان سے فساد برپا کرنے کی توقع کیسے ہو سکتے تھی؟۔