سورة الاعراف - آیت 126

وَمَا تَنقِمُ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِآيَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاءَتْنَا ۚ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور تو نے ہم میں کون سا عیب دیکھا ہے بجز اس کے کہ ہم اپنے رب کے احکام پر ایمان لائے ہیں (١) جب وہ ہمارے پاس آئے۔ اے ہمارے رب ہمارے اوپر صبر کا فیضان فرما (٢) اور ہماری جان حالت اسلام پر نکال (٣)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(64) یعنی جو تمہارے نزدیک ہمارا عیب ہے، وہی سب سے بڑی خوبی ہے، اس کے بعد جادوگروں نے اپنے لیے ثابت قدمی اور خاتمہ بالخیر کی دعا کی اور فرعون سے کہا : یعنی اب تو جو کچھ کرنے والا ہے کر گزر، تیرا حکم صرف اسی دنیاوی زندگی میں چلے گا، ہم تو اس امید میں اپنے پروردگار پر ایمان لائے ہیں کہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے گا، اور جو کچھ ہم سے زبر دستی کرا یا ہے وہ تو جادو ہے اور اللہ ہی بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہ، (طہ :72/73) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں ( اللہ کی مشیت دیکھئے کہ) صبح کو وہ لوگ جادوگر تھے، اور شام کو اللہ کے نیک اور شہید بندے بن گئے۔