قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِمَّا أَن تُلْقِيَ وَإِمَّا أَن نَّكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ
ان ساحروں نے عرض کیا اے موسٰی! خواہ آپ ڈالئے اور یا ہم ہی ڈالیں (١)
(59) جادو گروں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اختیار دیا کہ چاہو تو تم ہی پہلے اپنا کام دکھاؤ، یا ہم اپنا کام دکھائیں گو یا انہیں اپنے اوپر بھرپور اعتماد تھا کہ غلبہ انہی کو حاصل ہوگا، چاہے بعد میں ہی اپنا کرتب دکھلائیں، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ پہلے تم ہی لوگ اپنی قوت کا مظاہرہ کرو، اور اس میں حکمت یہ تھی کہ جب لوگ ان کے کار ناموں کو دیکھ لیں گے پھر معجزہ الہی کا ظہور ہوگا، اور اپنی پوری قوت کے ساتھ دیکھنے والوں کے دل ودماغ پر اثر ڈالے گا، بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس میں ایک قسم کی دھمکی تھی کہ ہاں پہلے تم ہی اپنی جادو گری دکھلاؤ پھر دیکھ لو گے کہ کیسی ذلت کا تمہیں سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ جادو معجزہ پر کبھی بھی غالب نہیں آسکتا چنانچہ انہوں نے لوگوں کی آنکھوں کو مسحور کردیا، لوگ سمجھنے لگے کہ واقعی ان کے سامنے سانپ دوڑ رہا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ طہ آیات (66۔69) میں فرمایا ہے : یعنی موسیٰ کو یہ خیال گذرنے لگا کہ ان کی رسیاں اور لکڑیاں ان کے جادو کے زور سے دوڑ بھاگ رہی ہیں۔ چنانچہ موسیٰ اپنے دل ہی دل میں ڈرنے لگے ہم نے کہا کچھ خوف نہ کر، یقینا تو ہی غالب اور برتر رہے گا، تیرے دائیں ہاتھ میں جو لاٹھی ہے اسے زمین پر ڈال دے تاکہ وہ ان کی تمام کاریگری کو نگل جائے، انہوں نے جو کچھ بتایا ہے یہ جادو گروں کے کرتب ہیں، اور جادوگر کہیں بھی جائے کامیاب نہیں ہوتا۔