سورة الاعراف - آیت 2

كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُن فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنذِرَ بِهِ وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ ایک کتاب ہے جو آپ کے پاس اس لئے بھیجی گئی ہے کہ آپ اس کے ذریعہ ڈرائیں، سو آپ کے دل میں اس سے بالکل تنگی نہ ہو (١) اور نصیحت ہے ایمان والوں کے لئے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[ ٢] یہاں کتاب سے مراد یہی سورہ اعراف ہے اور قرآن میں جب کبھی سورۃ کے ابتداء میں کتاب کا لفظ آتا ہے تو اس کا معنی وہ سورت ہی ہوتا ہے گویا قرآن کریم کی ہر سورہ ایک مستقل کتاب ہے جو اپنی ذات، میں مکمل ہے اور قرآن ایسی ہی ایک سو چودہ کتابوں (یا سورتوں) کا مجموعہ ہے جیسا کہ سورۃ ’’البینہ‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً 0 فِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ﴾ (البینہ: 2۔3) پھر لفظ کتاب کا اطلاق پورے قرآن پر بھی ہوتا ہے۔ [ ٣] جب کبھی کوئی سورۃ نازل ہوتی اور آپ لوگوں کو سناتے تو کافروں کی طرف سے ردّعمل یہ ہوتا کہ کبھی صاف انکار کردیتے کبھی مذاق اڑاتے، کبھی اعتراضات شروع کردیتے، کبھی کسی حِسی معجزہ کا مطالبہ شروع کردیتے۔ غرض یہ کہ ان کی طرف سے حوصلہ شکنی اور دل شکنی کی تمام صورتیں واقع ہوجاتیں مگر حوصلہ افزائی کی کوئی صورت نہ ہوتی اسی وجہ سے بعض دفعہ آپ کی طبیعت میں سخت انقباض اور گھٹن پیدا ہوجاتی اللہ تعالیٰ آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن لوگوں تک صرف پہنچا دیں اور انہیں ڈرائیں کفار سے جو ردعمل ہو رہا ہے یا وہ ہدایت قبول نہیں کرتے تو اس کے لیے آپ پریشان نہ ہوں اللہ خود ان سے نمٹ لے گا، البتہ اس قرآن کے سنانے کا ایک فائدہ تو یقینی ہے جو یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کے لیے یہ نصیحت بھی ہے اور یاد دہانی بھی جو ان کے ایمان کو مزید پختہ اور مضبوط بنا دے گی۔ اور یاد دہانی سے مراد عہد ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ﴾ ( الاعراف :172) کی یاددہانی ہے جو ہر انسان کے تحت الشعور میں موجود ہے اور کسی بھی خارجی داعیے سے اس کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ یہ قرآن اسی دبے ہوئے شعور کو بیدار کرتا اور اس عہد کی یاد تازہ کرتا ہے۔