وَكَذَٰلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ أَوْلَادِهِمْ شُرَكَاؤُهُمْ لِيُرْدُوهُمْ وَلِيَلْبِسُوا عَلَيْهِمْ دِينَهُمْ ۖ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ
اور اسی طرح بہت سے مشرکین کے خیال میں ان کے معبودوں نے ان کی اولاد کے قتل کرنے کو مستحسن بنا رکھا ہے (١) تاکہ وہ ان کو برباد نہ کریں اور تاکہ ان کے دین کو ان پر مشتبہ کردیں (٢) اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو ایسا کام نہ کرتے (٣) تو آپ نے ان کو اور جو کچھ غلط باتیں بنا رہے ہیں یونہی رہنے دیجئے۔
[١٤٥] قتل اولاد کی تین وجوہ :۔ دور جاہلیت میں اولاد کو تین وجوہ سے قتل کیا جاتا تھا۔ (١) بیٹیوں کو اس عار کی وجہ سے زندہ درگور کرتے تھے کہ کوئی نہ کوئی ان کا داماد بنے گا جس کے آگے ان کی آنکھیں نیچی ہوں گی اور اس لیے بھی کہ اگر وہ کسی دوسرے قبیلے میں چلی گئی یا بیاہی گئی تو کئی پیچیدہ مسائل پیدا ہوجائیں گے کیونکہ ان میں رائج قبائلی نظام عصبیت کے سہارے چلتا اور جھگڑوں اور جنگوں پر ختم ہوتا تھا۔ (٢) اللہ پر عدم توکل۔ بعض لوگ اپنی اولاد کو خواہ بیٹا ہو یا بیٹی، اس لیے مار ڈالتے تھے کہ ان کا خرچ برداشت نہ کرسکیں گے یا اپنا معیار زندگی برقرار نہ رکھ سکیں گے اور اس جرم میں آج کی دنیا کا تقریباً پورا معاشرہ شریک ہے جو خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر برتھ کنٹرول، اسقاط حمل اور عورتوں اور مردوں کو بانجھ بنانے کے طریقے دریافت کر کے اس جرم کا علانیہ ارتکاب کر رہے ہیں اور یہ کام حکومتوں کی سرپرستی میں ہوتے ہیں اور اس فعل کو بہت مستحسن قرار دیا گیا ہے۔ (٣) بتوں کے نام پر منت۔ یعنی اگر میرے ہاں اتنے بیٹے پیدا ہوں تو میں ایک بیٹا فلاں بت کے حضور قربان کروں گا جیسا کہ آپ کے دادا عبدالمطلب نے بھی یہ منت مانی تھی کہ اگر میرے ہاں بارہ بیٹے پیدا ہوئے تو ایک بیٹے کی قربانی دوں گا۔ پھر اس منت کا قرعہ آپ کے باپ عبداللہ کے نام نکلتا تھا جو بالآخر سو اونٹوں کی دیت کے مقابل ٹھہرایا مثلاً یہ کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں ایک بیٹا یا بیٹی فلاں بت کے حضور قربانی دوں گا۔ مبتدعین بھی دراصل اللہ کے شریک ہوتے ہیں :۔ اس آیت میں شریکوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے قتل کی مندرجہ بالا صورتوں کو ایجاد کیا تھا اور جنہیں معاشرہ نے قبول کرلیا تھا۔ چونکہ شرعی نقطہ نظر سے ہر طرح کی قانون سازی کا اختیار اللہ کو ہے لہٰذا ان رسوم کے موجد اللہ کے شریک ٹھہرے۔ ان لوگوں کا جرم صرف یہ نہ تھا کہ وہ اپنی اولاد کو قتل کرتے تھے بلکہ اس سے بھی بڑا جرم یہ تھا کہ وہ ایسے کاموں کو جرم سمجھنے کی بجائے انہیں اچھے اور اپنی فلاح و بہبود کے کام سمجھتے تھے۔ [١٤٦] ہلاکت سے مراد دونوں طرح کی ہلاکت ہے اخلاقی بھی اور تمدنی بھی۔ اخلاقی اس لحاظ سے کہ قتل بذات خود ایسا شدید ترین جرم ہے جو انسان میں شقاوت اور سنگدلی پیدا کرتا ہے جس سے وہ مزید قتل پر دلیر ہوجاتا ہے اور قتل اولاد تو عام قتل سے بھی بڑا جرم ہوا۔ یہ اسی کا اثر تھا کہ قبائلی عرب میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر اگر جھگڑا اٹھ کھڑا ہوتا تو فوراً قتل و غارت شروع ہوجاتی۔ اس معاشرہ میں انتہا درجہ کی خون کی ارزانی واقع ہوچکی تھی اور اخلاقی انحطاط اس درجہ پیدا ہوگیا تھا کہ نہ کسی کی جان محفوظ رہی تھی نہ مال اور نہ آبرو۔ اور تمدنی ہلاکت اس لحاظ سے کہ جو قوم اس طرح اپنی اولاد کو ختم کرنا شروع کر دے وہ اس دنیا میں کب تک اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے۔ پھر ایسے کاموں کے نتیجہ میں آخرت میں ان کی ہلاکت ایسی حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں۔ [١٤٧] مشرکین مکہ کی بعض اچھی صفات :۔ مشرکین مکہ اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا پیروکار قرار دیتے تھے۔ پھر ان میں کچھ اچھی باتیں بھی موجود تھیں جن سے اس بات کا شبہ ہوتا تھا۔ مثلاً عبادات میں بیت اللہ کا طواف، صفا و مروہ کی سعی اور حج و عمرہ کی عبادات بجا لانا اگرچہ ان میں بھی کئی غلط رسوم اور عقائد شامل ہوچکے تھے اور اخلاقیات اور معاملات میں مہمان نوازی، عہد کی پابندی اور صدق مقال جھوٹ سے اجتناب، کسی کو امان دینا تو پھر اسے پوری ذمہ داری سے نبھانا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن دور نبوی تک ان کا مذہب شرک و بدعات کے ملغوبہ میں دب کر رہ گیا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ صحف ابراہیم محفوظ نہیں رہے تھے اور یہ معلوم کرنے کا کوئی معیار نہ تھا کہ فلاں کام یا فلاں رسم کب شروع ہوئی اور اس کا کوئی شرعی جواز ہے یا نہیں۔ دوسری وجہ امتداد زمانہ ہے یعنی سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے لے کر آپ کی بعثت تک تین ہزار سال کی مدت۔ اس دوران بے شمار شرک و بدعات کے موجد پیدا ہوتے رہے اور اپنی اختراعات اس دین میں شامل کرتے رہے اور کوئی حقیقی معیار موجود نہ ہونے کی وجہ سے قوم انہیں دین کا جزو سمجھتی اور اس پر عمل پیرا ہوتی رہی۔ مشرکین مکہ میں آخرت کے انکار کا عقیدہ کب رائج ہوا ؟ ان امور کی تو کسی نہ کسی حد تک سمجھ آتی ہے مگر جس بات کا سراغ لگانا مشکل ہے وہ یہ بات ہے کہ مشرکین مکہ میں سے اکثر اللہ کے خالق و مالک ہونے کے تو قائل تھے مگر حشر و نشر، قیامت اور اخروی جزا و سزا کے منکر تھے۔ کسی نبی کے پیروکاروں میں ایمان کے ایسے لازمی جز کا مفقود ہوجانا بڑی حیرانگی کی بات ہے۔ ان مشرکین میں آخرت کے انکار کے عقیدہ کا موجد کون تھا اور یہ عقیدہ کس زمانہ میں ایجاد ہوا تھا، اس کے متعلق کچھ کہنا مشکل ہے۔