وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ ۖ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُم مِّنَ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا ۚ قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ
اور جس روز اللہ تعالیٰ تمام خلائق کو جمع کرے گا (کہے گا) اے جماعت جنات کی! تم نے انسانوں میں سے بہت سے اپنا لئے (١) جو انسان ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار! ہم میں ایک نے دوسرے سے فائدہ حاصل کیا تھا (٢) اور ہم اپنی اس معین میعاد تک آپہنچے جو تو نے جو ہمارے لئے معین فرمائی اللہ فرمائے گا کہ تم سب کا ٹھکانہ دوزخ ہے جس میں ہمیشہ رہو گے ہاں اگر اللہ ہی کو منظور ہو تو دوسری بات ہے۔ (٣) بیشک آپ کا رب بڑی حکمت والا بڑا علم والا ہے۔
[١٣٥] جنوں کا انسانوں کے سر چڑھنا :۔ سورۃ جن میں اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون سے ملتا جلتا مضمون بیان فرمایا ہے کہ آدمیوں میں سے کچھ لوگ ایسے تھے جو جنوں سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ انسانوں کے اس فعل نے جنوں کی سرکشی کو اور بڑھا دیا۔ یعنی جن انسانوں کے سر پر چڑھ گئے۔ دور جاہلیت میں جب کوئی شخص جنگل میں پھنس جاتا یا کسی سفر میں اسے جان کا خطرہ درپیش ہوتا تو وہ یوں کہتا میں اس جنگل کے مالک کی پناہ میں آتا ہوں۔ یعنی ان لوگوں کے وہم کے مطابق ہر جنگل کا الگ الگ بادشاہ ہوتا تھا اور جو شخص اس سے پناہ مانگتا تو وہ اس کی فریاد کو بھی پہنچتا تھا اور یہ بادشاہ کوئی شیطان یا جن ہی ہوا کرتا تھا۔ جو آدمیوں کی ایسی فریاد سن کر خوشی سے پھولا نہ سماتا اور کہتا میں جنوں کے علاوہ آدمیوں کا بھی سردار بن گیا۔ جن ایک غیر مرئی مخلوق ہے جو مختلف شکلیں اختیار کرسکتے ہیں۔ ان میں بھی انسانوں کی طرح اکثریت برے لوگوں کی ہے جنہیں خبیث روحیں بھی کہا جاتا ہے۔ یہ روحیں بعض دفعہ سفر میں اور بالخصوص ناپاک جگہوں میں کوئی بری سی شکل دھار کر انسانوں کو خوفزدہ کرتی ہیں اور ان پر اپنا رعب جماتی ہیں۔ ایسی بد روحوں کو ہمارے ہاں عموماً بھوت اور چڑیل کہا جاتا ہے۔ بیت الخلاء میں جاتے وقت ہمیں جو دعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے وہ یوں ہے ’’اے اللہ ! میں جنوں اور جننیوں (بد روحیں مذکر ہوں یا مونث) سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الاستیذان۔ باب الدعاء عندالخلاء) جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایسی بد روحیں انسان کو تنگ اور پریشان کرسکتی ہیں۔ جنوں اور انسانوں کا ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانا :۔ اب جنوں اور انسانوں کی ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانے کی صحیح صورتیں تو ہمیں معلوم نہیں تاہم ایک مشہور و معروف صورت جو ہم دیکھتے ہیں وہ تسخیر جنات کی صورت ہے۔ جنوں کو مسخر کرنے والے انسانوں کو ہماری زبان میں عامل کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ قرآن کریم کی مختلف سورتوں، آیتوں یا بعض دوسرے جنتروں منتروں کی زکوٰۃ نکالتے ہیں۔ اور زکوٰۃ نکالنا، کی اصطلاح ان کے پورے عمل کو ظاہر کرنے کے لیے وضع کی گئی ہے۔ ان کے زکوٰۃ کے عمل کی یہ صورت ہوتی ہے کہ مثلاً ایک شخص سورۃ جن کی زکوٰۃ نکالنا چاہتا ہے تو وہ چالیس دن رات کو کسی جنگل میں جا کر مقررہ تعداد میں سورۃ مذکور کو پڑھے گا اور اپنے گرد ایک حصار یا گول دائرہ کھینچ لے گا اور یہ عمل چالیس دن تک برابر جاری رکھے گا اور ان دنوں میں فلاں فلاں کھانے یا فلاں کام کرنے سے پرہیز رکھے گا۔ جب وہ یہ عمل رات کو کر رہا ہوگا تو جن طرح طرح کی شکلیں بن کر اسے ڈرانے آتے رہیں گے۔ لیکن حصار کے اندر داخل ہو کر اس پر حملہ نہ کرسکیں گے۔ اگر اس دوران عامل جنوں سے ڈر گیا تو جن اس سے انتقام لیں گے۔ مثلاً بیمار کردیں گے، اپاہج بنا دیں گے، پاگل بنا دیں گے، اس سے چمٹ کر طرح طرح کی اذیتیں دیں گے یا جان ہی سے مار ڈالیں گے۔ یہ سزا وہ اس عامل کے اس وقت تک کیے ہوئے عمل کے مطابق دیں گے۔ اور اگر وہ عامل پوری دلجمعی سے اپنا عمل جاری رکھے اور بد روحوں سے ہرگز خوفزدہ نہ ہو اور چالیس دن کا کو رس پورا کرلے تو پھر وہ کامیاب ہے۔ کوئی نہ کوئی جن اس کا تابع بن جائے گا جس سے وہ طرح طرح کے کام لے سکتا ہے جب اس جن کی ضرورت پیش آئے تو ایک دفعہ سورۃ جن پڑھ کر اسے بلائے تو وہ حاضر ہوجائے گا اور عامل اس کو مطلوبہ کام پر مامور کر کے اس سے کام کروا سکتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جس عامل نے کوئی جن یا بدروح مسخر کرلی ہو وہ اسے مطلوبہ کام پر لگا کر دنیوی مفادات بھی حاصل کرسکتا ہے۔ جب کوئی جن کسی عورت کے جسم میں حلول کر کے اسے پریشان کر رہا ہو (یاد رہے کہ جن عموماً عورتوں کو ہی پڑتے ہیں مردوں کو کم ہی پڑتے ہیں) تو عامل کو بلایا جاتا ہے۔ وہ جن کو حاضر کر کے حالات معلوم کرتا، مریض کے علاج معالجہ کا وعدہ کرتا اور گھر والوں سے نذرانے وصول کرتا ہے یہاں ایک بات اور بھی قابل ذکر ہے کہ جن عموماً اس بستی میں عورتوں کو پریشان کرتے ہیں جہاں کوئی عامل رہتا ہو۔ جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اپنے مفادات کی خاطر عامل بعض دفعہ خود ہی جن ڈالتے ہیں پھر جب اسے علاج کے لیے بلایا جائے تو اپنے نذرانے وصول کرتے ہیں۔ بہرحال جنوں کے انسانوں کو تنگ کرنے اور عاملوں کے کارناموں کے متعلق طرح طرح کی داستانیں مشہور ہیں اور کچھ واقعات دیکھنے میں بھی آتے رہتے ہیں اور حقیقت کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ [١٣٦] یہ سارا کاروبار چونکہ جادو سے ملتا جلتا ہے اور جنوں کے ذریعہ غیب کے حالات معلوم کرنے کا دھندا بھی اس میں شامل ہے۔ لہٰذا قرآن کی نظروں میں یہ بھی کفر ہے اسی لیے اللہ نے ایسے جنوں اور انسانوں کی سزا دوزخ مقرر کی ہے۔ [١٣٧] گناہوں کی سزا احوال و ظروف کو مدنظر رکھ کردی جاتی ہے اور یہی انصاف کا تقاضا ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کے عذاب دوزخ کی مدت میں کمی بیشی عین انصاف کے مطابق ہوگی۔