وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا ۚ لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
آپ کے رب کا کلام سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے (١) اس کلام کا کوئی بنانے والا نہیں (٢) اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے (٣)۔
[١٢٠] قرآن پاک کی تمام تر خبریں سچی اور احکام معتدل ہیں :۔ یعنی اس کتاب میں توحید باری تعالیٰ پر اتنے دلائل دیئے جا چکے ہیں کہ جن سے حق نکھر کر سامنے آ چکا ہے۔ آپ کے پروردگار کے فرامین سچائی اور انصاف کے ساتھ پورے ہوچکے۔ اس کتاب کی تمام تر خبریں سچی ہیں اور اس کے احکام معتدل اور منصفانہ ہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ ان احکام و فرامین میں کسی طرح کا رد و بدل کرسکے یا اس میں سے کسی آیت کو چھپا سکے یا اپنی طرف سے کچھ اضافہ کرسکے۔ واضح رہے کہ کسی بھی الہامی کتاب کو سرسری طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جس کا تعلق اخبار یا خبر دینے سے ہوتا ہے جو وہ گزشتہ قوموں اور انبیاء کے حالات ہوں یا آئندہ کے متعلق پیش گوئیاں ہوں مثلاً قیامت سے پیشتر کون کون سے فتنے یا حوادث پیش آنے ہیں اور خواہ ان کا تعلق مابعد الطبیعیات سے ہو جیسے دوبارہ زندہ ہونا، اللہ کے حضور پیشی اور اپنے اپنے اعمال کی باز پرس اور جنت اور دوزخ وغیرہ کے حالات کا بیان اور دوسرا حصہ وہ ہے جس میں اوامر و نواہی بیان کیے جاتے ہیں خواہ اللہ کے حقوق سے متعلق ہوں یا بندوں کے حقوق سے یا خواہ معاشرتی اور تمدنی احکام ہوں یا معاشی یا سیاسی ہو یا عائلی زندگی سے متعلق ہوں۔ قرآن کریم میں پہلی قسم سے متعلق جو خبریں دی گئی ہیں وہ مکمل اور ٹھوس حقائق پر مبنی اور سچی ہیں۔ اور دوسرے حصہ میں جو احکام بیان کیے گئے ہیں وہ افراط و تفریط سے پاک اور نہایت معتدل اور متوازن ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سب لوگوں کی خود باتیں سننے والا اور ان کے ہر طرح کے حالات کو خوب جاننے والا ہے۔