سورة الانعام - آیت 81

وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا ۚ فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنایا ہے حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نہیں فرمائی، سو ان دو جماعتوں میں سے امن کا زیادہ مستحق کون ہے (١) اگر تم خبر رکھتے ہو۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨٤] معبودوں کی طرف سے سزاکی دھمکی :۔ ان بت پرستوں کے پاس سب سے بڑا ہتھیار یہ تھا کہ جن بتوں کی تم توہین کر رہے ہو وہ خود تم سے نمٹ لیں گے جیسا کہ ان کا اپنا اعتقاد تھا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ان کو یہ جواب دیا کہ اگر تم اللہ سے نہیں ڈرتے جس کی پوری کائنات پر حکمرانی ہے تو پھر تمہارے ان بتوں سے میں کیوں ڈروں جن کو تم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے اور ایسے بے جان پتھر ہیں جو اپنے وجود اور اپنے بقا کے لیے تمہارے محتاج ہیں یہ بھلا میرا یا تمہارا کیا بگاڑ سکتے ہیں یا سنوار سکتے ہیں ؟ دوسری بات یہ ہے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اس علم حقیقی کی بنا پر کہہ رہا ہوں جو مجھے اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے لیکن تمہارا ان بتوں کو نفع و نقصان کا مالک و مختار سمجھنا تمہارا اپنا وہم اور قیاس ہے جس کے لیے تمہارے پاس کوئی دلیل موجود نہیں ہے لہٰذا تم خود ہی سوچ سمجھ لو کہ اللہ کی طرف سے عذاب کا مستحق کون ہوگا اور امن و سلامتی کا مستحق کون؟