وَكَذَٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لِّيَقُولُوا أَهَٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا ۗ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ
اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈال رکھا ہے تاکہ یہ لوگ کہا کریں، کیا یہ وہ لوگ ہیں کہ ہم سب میں سے ان پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا (١) کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ شکرگزاروں کو خوب جانتا ہے (٢)
[٥٦] قریشی سرداروں کی ناتواں صحابہ پر طعنہ زنی :۔ یعنی اقرع اور عیینہ کو آزمائش میں ڈال دیا ہے جو اپنی شرافت اور مالداری پر مغرور ہیں اور غریب بے کس اور سچے مسلمانوں کو اتنا حقیر سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ مل کر بیٹھنا بھی انہیں گوارا نہیں۔ حالانکہ یہ لوگ انتہائی خلوص کے ساتھ اللہ کی رضا کے طالب تھے۔ پھر یہی اقرع اور عیینہ اور دوسرے مغرور سرداران قریش زبانی بھی کہا کرتے تھے کہ اس شخص ( محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ساتھی بھی کیسے ملے ہیں۔ کیا ہم لوگوں میں سے اللہ کو یہی لوگ ایسے ملے تھے جنہیں برگزیدہ کیا جا سکتا تھا نیز ان کا مذاق اڑاتے اور ان پر پھبتیاں کستے تھے۔ اور اگر کسی کی کسی سابقہ اخلاقی کمزوری کا علم ہوتا تو کہتے کہ کل تک تو فلاں شخص کا یہ حال تھا اور آج یہ برگزیدہ لوگوں میں شامل ہیں۔ نیز ﴿بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ ﴾ کے الفاظ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آیا یہ نادار اور ناتواں مسلمان بھی کفار کی ایسی حقارت آمیز اور طعن و تشنیع پر مشتمل باتوں کو سن کر ان پر صبر کرتے ہیں؟ اور کس حد تک صبر کرتے ہیں۔