سورة المآئدہ - آیت 116

وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو! (١) عیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں، مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کو کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں، اگر میں نے کہا ہوگا تو تجھ کو اس کا علم ہوگا، تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا (٢) تمام غیبوں کے جاننے والا تو ہی ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٦٦] مریم کی خدائی کی آغاز کب ہوا ؟ سیدہ مریم علیہا السلام کو خدائی مقام عطا کرنا اور اس کی پوجا پاٹ کا عقیدہ، عقیدہ تثلیث سے بھی بعد کی پیداوار ہے۔ عقیدہ تثلیث میں خدا یہ تھے۔ اللہ، عیسیٰ اور روح القدس اور یہ عقیدہ چوتھی صدی عیسوی میں سرکاری طور پر رائج ہوا۔ جبکہ سیدہ مریم علیہا السلام کے خدا ہونے کا عقیدہ پانچویں صدی عیسوی کی ایجاد ہے۔ سیدہ مریم کو مادر خدا ہونے کے لقب سے نوازا گیا اور یہ عقیدہ اتنا عام ہوا کہ پہلے تین خداؤں پر چھا گیا۔ سیدہ مریم کو دیوی کا درجہ دے کر ان کے مجسمے اور تصویریں بنائی گئیں جو آج تک عیسائیوں کے گرجوں کی زینت بنی ہوئی ہیں اور عیسائی حضرات اس کے آگے سر نیاز خم کرتے ہیں۔ عیسائی حکومتوں کے قومی جھنڈے پر سیدہ مریم کی تصویر بنائی جاتی۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جو ہرقل شاہ روم تھا اس کے جھنڈے پر بھی یہ تصویر موجود تھی اور جنگ کے دوران اسی کے وسیلہ سے فتح و نصرت کی دعائیں مانگی جاتی تھیں۔ [١٦٧] قیامت کے دن سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے ان کی الوہیت کے متعلق تین سوال :۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو مذکورہ بالا احسانات یاد دلانے کے بعد ان سے یہ پوچھیں گے کہ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے بجائے مجھے اور میری ماں کو الٰہ بنا لینا اور اپنی تمام حاجات ہم سے طلب کرنا۔ کیا میرے احسانات کا یہی بدلہ تھا ؟ عیسیٰ علیہ السلام نہایت عاجزی سے جواب دیں گے کہ یا اللہ میں ایسی بات کیوں کر کہہ سکتا تھا جو میرے لیے سزاوار ہی نہ تھی علاوہ ازیں تو تو چھپی اور علانیہ سب باتوں کو خوب جانتا ہے اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو یقیناً تیرے علم میں ہوتی۔ واضح رہے کہ قیامت کے دن کا یہ مکالمہ اس لیے بیان نہیں کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو اس بات کا علم ہوجائے بلکہ یہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ان پیرو کاروں کی تہدید اور سرزنش کے لئے بیان کیا جا رہا ہے جنہوں نے آپ کے بعد انہیں اور ان کی والدہ کو الٰہ بنا لیا تھا تاکہ ان کے خلاف ان کے رسول ہی کی شہادت قائم ہوجائے جس کی وہ پرستش کرتے رہے۔