سورة المآئدہ - آیت 115

قَالَ اللَّهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ۖ فَمَن يَكْفُرْ بَعْدُ مِنكُمْ فَإِنِّي أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لَّا أُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں وہ کھانا تم لوگوں پر نازل کرنے والا ہوں، پھر جو شخص تم میں سے اس کے بعد ناحق شناسی کرے گا تو میں اس کو ایسی سزا دوں گا کہ وہ سزا دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہ دونگا (١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٦٥] مطالبہ کے معجزہ کے بعد نافرمانی پر عذاب لازم آتا ہے :۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنے نبی سے کسی خاص قسم کے معجزہ کا مطالبہ کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس قوم کو اس کا مطلوبہ معجزہ دکھا دے۔ لیکن یہ قوم پھر بھی ایمان نہ لائے تو پھر اس پر اسی دنیا میں کوئی انتہائی سخت عذاب نازل ہوتا ہے۔ یہی حقیقت اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ اس کی واضح مثال تو قوم ثمود کا اپنے نبی صالح علیہ السلام سے یہ مطالبہ تھا کہ اس پہاڑ سے حاملہ اونٹنی نکلے جو ہمارے سامنے بچہ جنے تب ہم ایمان لائیں گے۔ اللہ نے یہ معجزہ دکھادیا۔ لیکن ثمود نے ایمان لانے کی بجائے پھر سرکشی کی روش اختیار کی اور اس اونٹنی کو بھی ہلاک کر ڈالا تو ان پر سخت قسم کا زلزلہ آیا اور ساتھ ہی بڑی شدید اور کرخت آواز پیدا ہوئی جس سے سب کے سب تباہ ہوگئے تھے اور دوسری مثال یہی مطالبہ ہے۔ اس کے متعلق درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے۔ خوان نعمت کا مطالبہ کرنے والوں کا انجام :۔ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جو دسترخوان آسمان سے اتارا گیا تھا اس میں روٹی اور گوشت تھا اور انہیں حکم یہ دیا گیا تھا کہ اس میں نہ خیانت کریں گے اور نہ کل کے لیے ذخیرہ کریں گے۔ پھر ان لوگوں نے خیانت بھی کی اور کل کے لیے بھی اٹھا رکھا۔ لہٰذا انہیں بندر اور سور بنا دیا گیا۔ ‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ زیر آیت مذکورہ) اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا دسترخوان صرف ایک دن نہیں بلکہ کچھ عرصہ تک نازل ہوتا رہا مطالبہ کرنے والوں نے کہا تھا کہ اس دسترخوان سے غریب، نادار، معذور اور بے کس لوگ کھایا کریں گے مگر بعد میں کھاتے پیتے لوگ بھی اس دسترخوان میں شریک ہونے لگے۔ یہ ان کی خیانت تھی۔ علاوہ ازیں کل کے لیے سٹور بھی کرنا شروع کردیا اور ان کے بے جا طمع اور اللہ پر عدم توکل کی دلیل تھا اور اس سے انہیں روکا بھی گیا تھا۔ دیگر بھی کئی نافرمانیاں کیں جن کی پاداش میں ان میں اسی کے قریب آدمیوں کی صورتیں مسخ کر کے بندر اور سور کی سی بنا دی گئیں۔ امام ترمذی کی تصریح کے مطابق یہ حدیث مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہے اسی لیے بعض علماء نے اس واقعہ سے اختلاف کیا ہے۔ ان کا قول یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا معجزہ طلب کرنے سے ڈرایا تو وہ فی الواقع ڈر گئے اور اپنے مطالبہ سے باز آ گئے۔ لہٰذا دسترخوان اترا ہی نہیں تھا لیکن ایسے اقوال کے علی الرغم ہم موقوف حدیث کو ہی ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ واقعہ قرآن میں اسی انداز سے مذکور ہے۔