يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اے ایمان والو! اپنی فکر کرو، جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں (١) اللہ ہی کے پاس تم سب کو جانا ہے پھر وہ تم سب کو بتلا دے گا جو کچھ تم سب کرتے تھے۔
[١٥٣] سب سے پہلے اپنی اصلاح ضروری ہے :۔ یعنی تمہیں سب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہیے۔ یہ نہ دیکھنا چاہیے کہ دوسرا کیا کر رہا ہے۔ بلکہ اپنے عقائد، اپنے کردار، اخلاق و اعمال کی اصلاح کتاب و سنت کی روشنی میں کرنی چاہیے۔ دوسروں کی کجروی اور گمراہی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ یعنی سب سے پہلے تمہیں اپنی دینی بنیادیں اس قدر مضبوط بنانا چاہئیں کہ دوسرے لوگوں کی ضلالت تم پر کسی طرح اثر انداز نہ ہو سکے۔ پھر اس کے بعد تمہیں بگڑے ہوئے دوسرے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسرے جو کچھ بھی کرتے رہیں، تمہیں ان سے بے نیاز ہو کر بس اپنی ہی فکر کرنا چاہئے۔ کیونکہ ﴿اَمَرْ بالْمَعْرُوْفِ﴾ اور ﴿نَھَی عَنِ الْمُنْکَرِ﴾ کا فریضہ اس قدر اہم ہے کہ بعض علماء کے نزدیک یہ فرض عین ہے۔ اور ہر شخص کو اپنی قوت، اپنے علم، اپنی استعداد کے مطابق اپنے حلقہ اثر میں یہ فرض ضرور سر انجام دینا چاہیے۔ پھر بھی اگر کوئی شخص روکنے کے باوجود باز نہ آئے۔ تو روکنے والے پر کچھ الزام نہ ہوگا۔