قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِن قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ
کہہ دیجئے اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو اور زیادتی نہ کرو (١) اور ان لوگوں کی نفسانی خواہشوں کی پیروی نہ کرو جو پہلے سے بہک چکے ہیں اور بہتوں کو بہکا بھی چکے ہیں (٢) اور سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں۔
[١٢٣] فلسفہ گمراہی؟ یہ لوگ وہی یونانی فلاسفر ہیں جن کے افکار و نظریات سے متاثر ہو کر عیسائیوں کے علماء و مشائخ نے چوتھی صدی عیسوی میں تثلیث کا عقیدہ ایجاد کیا۔ پھر حکومت کی سرپرستی کی بنا پر اس عقیدہ کو فروغ حاصل ہوگیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فلاسفر قسم کے لوگ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بھی بنتے ہیں۔ مسلمانوں میں غلو کی مثالوں کے لیے (دیکھئے سورۃ فرقان کا حاشیہ نمبر ٢) اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بال کی کھال اتارنے والے (فرقہ پرستی کی بنا پر) تباہ ہوئے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین بار فرمائی۔ (مسلم۔ کتاب العلم۔ باب النہی عن اتباع متشابہ القرآن)