يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی (١) اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچا لے گا (٢) بیشک اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
[١١٢] تمام رسولوں کی چار اہم ذمہ داریوں کا ذکر قرآن کریم میں متعدد بار آیا ہے۔ ان میں سب سے پہلی اور اہم ذمہ داری تبلیغ رسالت ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ توجہ اس طرف دی ہے۔ کفار کی ایذا رسانیوں کو سہہ سہہ کر اور پر مشقت سفر کر کرکے آپ انفرادی اور اجتماعی طور پر لوگوں سے ملتے اور انکے کڑے کسیلے جواب سننے کے باوجودآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری ذمہ داری سے یہ فریضہ انجام دیا۔ پھر زندگی کے آخری دور میں تین مختلف اوقات میں ہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مجمع میں ان سے گواہی لی۔ کہ آیا میں نے تبلیغ رسالت کا پیغام تمہیں پہنچا دیا ؟ پھر جب انھوں نے اثبات میں جواب دیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بآواز بلند فرمایا ’’ یا اللہ گواہ رہنا ‘‘۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تاکیداً فرمایا کہ وہ ان لوگوں کو رسالت کا پیغام پہنچا دیں جن تک یہ پیغام نہیں پہنچا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ١۔ تبلیغ رسالت کا فریضہ :۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ (حجۃ الوداع کے موقع پر) خطبہ دینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’تم سے میرے بارے میں سوال کیا جائے گا تو تم کیا کہو گے؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا’’ہم گواہی دیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور (حق تبلیغ) ادا کردیا اور خوب نصیحت و خیر خواہی کی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا ’’اے اللہ ! گواہ رہنا۔‘‘ (مسلم کتاب الحج۔ باب حجۃ النبی ) ٢۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ سن لو! تم میں سے جو لوگ موجود ہیں وہ ان لوگوں کو (اس خطبہ کے ارشادات) پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب لیبلغ العلم الشاھد الغائب) کیونکہ حاضر شاید ایسے غیر موجود شخص کو خبر دے جو اس بات کو اس سے زیادہ یاد رکھنے والا ہو۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب قول النبی رب مبلغ اوعی من سامع ) ٣۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ (ایک دفعہ نماز کسوف کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا اور اللہ کی حمد و ثناء بیان کرنے کے بعد فرمایا ’’یہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ انہیں نہ کسی کی موت کی وجہ سے گہن لگتا ہے اور نہ کسی کی پیدائش کی وجہ سے۔‘‘ (خطبہ ختم کرنے کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر فرمایا ’’اے اللہ ! میں نے یقیناً تیرا پیغام پہنچا دیا۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الکسوف پہلی حدیث) ہوا یہ تھا کہ جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تھا اسی دن سورج کو بھی اتفاق سے گہن لگ گیا۔ قدیم عرب کا اعتقاد تھا کہ چاند گرہن اور سورج گرہن کسی بڑے آدمی کی موت سے لگا کرتا ہے۔ اس واقعہ پر کچھ مسلمان بھی یہ کہنے لگے کہ سورج ابراہیم کی موت کی وجہ سے گہنا گیا اور یہ دن ٢٩ شوال ١٠ ھ روز دو شنبہ بمطابق ٢٧ جنوری ٦٣٢ ء کا دن تھا۔ جب سورج کو گہن لگنا شروع ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو دو رکعت طویل نماز پڑھائی جس میں چار رکوع اور چار سجدے کئے۔ اور صحابہ کو حکم دیا کہ جب سورج کو گرہن یا چاند گرہن لگے تو نماز پڑھا کرو۔ نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل خطبہ دیا جس میں اس جاہلی عقیدہ کا بھرپور رد کیا کہ سورج اور چاند تو اللہ کی نشانیاں ہیں۔ کسی بھی شخص کی موت یا زندگی سے انہیں گرہن نہیں لگا کرتا۔ طویل خطبہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کر کے پوچھا کہ آیا میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا ؟ صحابہ نے اثبات میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھا کر فرمایا۔ اے اللہ ! گواہ رہنا۔ میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا۔ (بخاری۔ ابو اب الکسوف، مسلم۔ کتاب الکسوف) ٤۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں اپنے سر سے کپڑا ہٹایا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی (اس حال میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ الفاظ دہرائے ’’اے اللہ ! یقیناً میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا۔‘‘ (مسلم کتاب الصلٰوۃ۔ باب نہی عن قراءۃ القرآن فی الرکوع والسجود ) اور تبلیغ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس بات کو زیادہ تر ملحوظ رکھتے تھے وہ درج ذیل احادیث سے ظاہر ہے : ٥۔ وعظ کے آداب :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نصیحت کرنے کے لیے وقت اور موقع کی رعایت فرماتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو برا سمجھتے کہ ہم اکتا جائیں۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب ماکان النبی یتخولھم بالموعظۃ والعلم کی لاینفروا ) ٦۔ ابو وائل کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کو لوگوں کو وعظ کرتے۔ ایک شخص نے ان سے کہا۔ ’’ابو عبدالرحمن! میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں ہر روز وعظ سنایا کریں۔‘‘ انہوں نے کہا ’’یہ میں اس لیے نہیں کرتا کہ تمہیں اکتا دینا مجھے اچھا معلوم نہیں ہوتا اور میں وقت اور موقع دیکھ کر تمہیں وعظ سناتا ہوں جیسے رسول اللہ ہمارا وقت اور موقع دیکھ کر ہمیں نصیحت فرماتے تھے آپ کو یہی ڈر تھا کہ ہم اکتا نہ جائیں۔‘‘ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب ماکان النبی یتخولھم، بالموعظہ والعلم کی لاینفروا) مردوں کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے لئے کبھی کبھی بالخصوص الگ اہتمام فرماتے تھے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : ٧۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (عیدالفطر کا خطبہ دے کر) مردوں کی صف سے نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال ہوا کہ شاید عورتوں تک میری آواز نہیں پہنچی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو نصیحت کی اور انہیں خیرات کرنے کا حکم دیا۔ کوئی عورت اپنی بالی پھینکنے لگی، کوئی انگوٹھی اور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنے کپڑے کے کونے میں یہ (صدقہ) لینا شروع کیا۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب عظۃ الامام النساء وتعلیمھن ) ٨۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے میں ہم پر غالب ہوئے۔ لہٰذا آپ خود ہمارے لیے ایک دن مقرر کر دیجئے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وعدہ فرما لیا۔ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وعظ فرمایا اور انہیں احکام شرع بتائے اور احکام میں سے ایک یہ بھی تھا جس عورت کے تین چھوٹے بچے فوت ہوجائیں (اور وہ صبر کرے) تو وہ ان کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گے کسی عورت نے کہا ’’اور اگر دو ہوں تو ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اور دو بھی‘‘ (بخاری۔ کتاب العلم۔ ھل یجعل للنساء یوما علی حدۃ فی العلم ) [١١٣] نبی اور رسول میں فرق :۔ علماء نے ایک نبی اور ایک رسول میں جو فرق بیان کیے ہیں وہ یہ ہیں : (١) آنے والے رسول کی بشارت پہلے ہی کتاب اللہ میں دے دی جاتی ہے جبکہ نبی کے لیے یہ بات ضروری نہیں ہوتی۔ (٢) رسول پر اللہ کی کتاب یا صحیفے نازل ہوتے ہیں اور وہ الگ سے اپنی امت تشکیل دیتا ہے جبکہ نبی اپنے سے پہلی کتاب ہی کی اتباع کرتا اور کرواتا ہے۔ (٣) رسول کی جان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ خود لے لیتا ہے جبکہ انبیاء ناحق بھی سرکش کافروں کے ہاتھوں قتل ہوتے رہے۔ اور رسول اللہ چونکہ تمام دنیا کے لیے اور قیامت تک کے لیے رسول ہیں۔ لہٰذا دوسروں کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ذمہ داری بھی زیادہ تھی۔ اسی لیے بطور خاص اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطمینان دلایا۔ یہ آیت جنگ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہونے کے بہت بعد نازل ہوئی۔ اس سے پہلے بعض دفعہ ایسے ہنگامی حالات پیش آ جاتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہرہ کے بغیر رات کو سو بھی نہ سکتے تھے۔ اس آیت کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کبھی پہرہ نہیں بٹھایا۔ تبلیغ رسالت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جان کا کس قدر خطرہ تھا ؟ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قریش مکہ، یہود اور منافقوں کی طرف سے تقریباً سترہ بار قاتلانہ حملے ہوئے اور ہر بار اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی اور ایسے کافروں کو ذلیل و رسوا کیا۔ ان حملوں کا اجمالی ذکر درج ذیل ہے : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نبوت ٢٣ سال ہے۔ ابتدائی تین سال تو انتہائی خفیہ تبلیغ کے ہیں۔ باقی بیس سال کے عرصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سترہ بار قاتلانہ حملے یا آپ کو قتل کردینے کی سازشیں تیار ہوئیں۔ ان میں سے ٩ حملے تو قریش مکہ کی طرف سے ہوئے، تین یہود سے، تین بدوی قبائل سے ایک منافقین سے اور ایک شاہ ایران خسرو پرویز سے اور غالباً اس دنیا میں کسی بھی دوسرے شخص پر اتنی بار قاتلانہ حملے نہیں ہوئے اور ہر بار اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی مطلع کر کے یا مدد کر کے آپ کو دشمنوں سے بچا کر اپنا وعدہ پورا کردیا۔ اب ہم ان قاتلانہ حملوں کے واقعات کو زمانی ترتیب کے ساتھ مختصراً ہدیہ قارئین کرتے ہیں۔ ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان بچانے والے کی شہادت : کوہ صفا پر اپنے اقربین کو دعوت دینے کے بعد جب آیت﴿فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ﴾نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم کعبہ میں جا کر توحید کا اعلان فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اعلان مشرکین مکہ کی سب سے بڑی توہین کے مترادف تھا۔ چنانچہ دفعتاً ایک ہنگامہ بپا ہوگیا اور ہر طرف سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پل پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ربیب (سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پہلے خاوند سے بیٹے) حارث بن ابی ہالہ گھر میں موجود تھے انہیں خبر ہوئی تو دوڑتے ہوئے آئے اور آپ کو بچانا چاہا۔ اب ہر طرف سے ان پر تلواریں پڑنے لگیں اور وہ شہید ہوگئے۔ اسلام کی راہ میں یہ پہلا خون تھا جو بہایا گیا۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ ذکر حارث بن ابی ہالہ بحوالہ سیرت النبی ج ١ ص ٣١٤) ٢۔ ابو جہل کا ارادہ قتل : ایک دن ابو جہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا ’’میں نے اللہ سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ کسی وقت جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ میں جائیں تو بھاری پتھر سے ان کا سر کچل دوں تاکہ یہ روز روز کا جھگڑا ختم ہو۔ اس کے بعد چاہے تو تم لوگ مجھے بالکل بےیار و مددگار چھوڑ دو کہ بنو عبد مناف مجھ سے جیسا چاہے سلوک کریں اور چاہے تو میری حفاظت کرو۔ ‘‘ اس کے ساتھیوں نے کہا ’’واللہ ! تمہیں بےیارومددگار نہ چھوڑیں گے۔ لہٰذا تمہارا جو جی چاہے کر گزرو۔ ‘‘ اس تجویز کے مطابق ابو جہل ایک بھاری پتھر لے کر کعبہ میں پہنچا اور مناسب موقع کا انتظار کرنے لگا۔ چنانچہ جب آپ سجدہ میں گئے تو ابو جہل پتھر لے کر آپ کے قریب پہنچا مگر یکدم خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹنے لگا اس کا رنگ اڑا ہوا تھا اور پتھر کو بھی مشکل سے نیچے رکھ سکا۔ اس کے ساتھی بڑے متعجب تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے پوچھا ’’ابو الحکم! یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘ وہ کہنے لگا ’’میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بڑھ رہا تھا تو ایک مہیب شکل کا اونٹ مجھے نظر آیا۔ بخدا میں نے کسی اونٹ کی ایسی ڈراؤنی کھوپڑی، گردن اور ایسے ڈراؤنے دانت کبھی نہیں دیکھے۔ وہ اونٹ مجھے کھا جانا چاہتا تھا اور میں نے مشکل سے پیچھے ہٹ کر اپنی جان بچائی تھی۔‘‘ (ابن ہشام ١ : ٢٩٨-٢٩٩ بحوالہ الرحیق المختوم ص ١٥١) ٣۔ عقبہ بن ابی معیط کا ارادہ قتل : عقبہ ہر وقت اس تاک میں رہتا تھا کہ آپ کا گلا گھونٹ کر آپ کا کام تمام کر دے۔ اور ایسا موقع مشرکین کو اس وقت میسر آتا تھا جب آپ کعبہ میں نماز ادا کر رہے ہوتے تھے۔ چنانچہ سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ ’’مشرکین مکہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے سخت ایذا پہنچائی وہ کیا تھی؟‘‘ تو انہوں نے اپنا چشم دید واقعہ یوں بیان کیا کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھے۔ عقبہ بن ابی معیط آیا اور اپنی چادر آپ کے گلے میں ڈال کر اسے اس قدر بل دیئے کہ آپ کا گلا گھٹنا شروع ہوگیا۔ آنکھیں باہر نکل آئیں اور قریب تھا کہ آپ کا کام تمام ہوجاتا۔ اتنے میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آن پہنچے۔ انہوں نے زور سے عقبہ کو پرے دھکیل کر آپ کو چھڑایا اور فرمایا’’کیا تم اس شخص کو صرف اس لیے مار ڈالنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے۔ حالانکہ وہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری طرف واضح نشانیاں بھی لے کر آیا ہے؟‘‘(٤٠: ٢٨) (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب فضل ابی بکر بعدالنبی کتاب التفسیر سورۃ مومن) اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی روایت میں مزید تفصیل یہ ہے کہ جب عقبہ نے آپ کی گردن میں چادر ڈال کر زور سے گھونٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چیخ نکل گئی کہ ’’اپنے ساتھی کو بچاؤ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ چیخ سن کر ہی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کے لیے آئے تھے اور جب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عقبہ کو دھکیل کر پرے ہٹا دیا تو مشرکین سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر حملہ آور ہوئے اور جب وہ واپس لوٹے تو ان کی اپنی یہ کیفیت تھی کہ ہم ان کی چوٹی کا جو بال بھی چھوتے تھے وہ ہماری چٹکی کے ساتھ چلا آتا تھا۔ (مختصر سیرۃ الرسول ص ١٣ بحوالہ الرحیق المختوم ٨ ص ١٥٣) ٤۔ سیدنا عمر کا اسلام لانے سے قبل آپ کو قتل کرنے کا ارادہ : ایک دفعہ مشرکین مکہ کعبہ میں بیٹھ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی افتاد سے نجات حاصل کرنے کے سلسلہ میں غور و فکر کر رہے تھے۔ سیدنا عمر جوش میں آ کر کہنے لگے کہ میں ابھی جا کر یہ جھنجھٹ ختم کیے دیتا ہوں اور ننگی تلوار لے کر اس ارادہ سے نکل کھڑے ہوئے راہ میں ایک مسلمان نعیم بن عبداللہ ملے اور پوچھا ’’عمر! آج کیا ارادے ہیں؟‘‘ کہنے لگے ’’تمہارے پیغمبر کا کام تمام کرنے جارہا ہوں‘‘ نعیم رضی اللہ عنہ کہنے لگے ’’پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو۔ تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہوچکے ہیں۔‘‘ سیدنا عمر نے اسی غصہ کی حالت میں ان کے گھر کا رخ کیا۔ دروازہ بند تھا۔ اندر سے قرآن پڑھنے کی آواز آ رہی تھی اور خباب بن الارت رضی اللہ عنہ انہیں قرآن کی تعلیم دے رہے تھے۔ سیدنا عمر نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ انہوں نے دروازہ کھولا تو سیدنا عمر نے اپنے بہنوئی کو بے تحاشہ پیٹنا شروع کردیا۔ ان کی بہن فاطمہ آڑے آئیں تو انہیں بھی لہولہان کردیا۔ فاطمہ کہنے لگیں ’’عمر! تم ہمیں مار بھی ڈالو تب بھی ہم اسلام کو چھوڑ نہیں سکتے۔‘‘ بہن کی اس بات پر آپ کا دل پسیج گیا۔ کہنے لگے اچھا مجھے بھی یہ کلام سناؤ۔ قرآن نے مزید دل کو متاثر کیا اور آپ کے دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ وہاں سے اٹھے اور سیدھے دارارقم کی طرف ہو لیے۔ تلوار اسی طرح ہاتھ میں تھی مگر اب ارادہ یکسر بدل چکا تھا۔ دارارقم پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ مسلمانوں نے دراڑ سے دیکھا کہ عمر ننگی تلوار لیے دروازہ پر کھڑے ہیں۔ مسلمان سہم سے گئے۔ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ بھی وہاں موجود تھے کہنے لگے، دروازہ کھول دو۔ اگر عمر کسی برے ارادہ سے آیا ہے تو اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کر دوں گا۔ دروازہ کھولا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود آگے بڑھے اور عمر کا دامن کھینچ کر پوچھا’’عمر کس ارادہ سے آئے ہو؟‘‘ سیدنا عمر نے بڑے ادب سے کہا ’’اسلام لانے کے لیے حاضر ہوا ہوں‘‘ چنانچہ سب کے سامنے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا جس پر سب مسلمانوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ گویا سیدنا عمر کا ارادہ قتل ہی آپ کے اسلام لانے کا سبب بن گیا۔ (سیرۃ النبی شبلی نعمانی ج ١ ص ٢٢٨ بحوالہ طبقات ابن سعد و ابن عساکر و کامل لابن الاثیر) ٥۔ قتل کے ارادہ سے ابو طالب سے سودا بازی : جب قریشی سرداروں کو یقین ہوگیا کہ ابو طالب اپنے بھتیجے کی حمایت سے کسی صورت بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں تو انہوں نے ایک نہایت گھناؤنی سازش سے ابو طالب کو فریب دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سکیم تیار کی۔ چند قریشی سردار مکہ کے رئیس اعظم ولید بن مغیرہ کے بیٹے عمارہ کو ہمراہ لے کر ابو طالب کے پاس آئے اور کہا’’یہ قریش کا سب سے بانکا اور خوبصورت نوجوان ہے آپ اسے اپنی کفالت میں لے لیں اور اپنا متبنیٰ بنا لیں۔ اس کی دیت اور نصرت کے آپ حقدار ہوں گے اور اس کے عوض آپ اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالہ کردیں جو ہمارے آباؤ اجداد کے دین کا مخالف ہے اور انہیں احمق قرار دیتا ہے اور قوم کا شیرازہ منتشر کر رہا ہے ہم اسے قتل کرنا چاہتے ہیں اور یہ ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی کا حساب ہے۔‘‘ ابو طالب کہنے لگے۔ ’’واللہ ! یہ کتنا برا سودا ہے جس کی تم مجھے ترغیب دینے آئے ہو۔ تم چاہتے ہو کہ میں تو تمہارے بیٹے کو کھلاؤں پلاؤں اور پالوں پوسوں اور اس کے عوض تم میرا بیٹا مجھ سے لے کر اسے قتل کر دو۔ واللہ ! یہ ناممکن ہے۔‘‘ اس پر مطعم بن عدی ابو طالب سے کہنے لگا ’’بخدا! تم سے تمہاری قوم نے انصاف کی بات کہی ہے۔ مگر تم تو کسی بات کو قبول ہی نہیں کرتے۔‘‘ ابو طالب کہنے لگے ’’بخدا! یہ انصاف کی بات نہیں ہے بلکہ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تم بھی میرا ساتھ چھوڑ کر مخالفوں سے مل گئے ہو۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو ٹھیک ہے جو چاہو کرو۔ ‘‘ (ابن ہشام ١ : ٢٦٦، ٢٦٧ بحوالہ الرحیق المختوم ص ١٤٥) ابو طالب کے اس جواب سے مایوس ہو کر قریش کا یہ مجمع منتشر ہو کر چلا گیا۔ ٦۔ وہ مشورہ قتل جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا سبب بنا : یہ واقعہ سورۃ انفال کی آیت نمبر ٣٠ میں مذکور ہے اور حاشیہ میں اس کی پوری تفصیل آ گئی ہے وہاں سے ملاحظہ کرلیا جائے۔ مختصراً یہ کہ اس مجلس مشاورت میں ابلیس خود بھی شامل ہوا تھا اور بالآخر طے یہ پایا تھا کہ مختلف قبائل کے گیارہ آدمی فلاں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیے رہیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم علی الصبح گھر سے نکلیں تو سب آدمی یکبارگی حملہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تمام کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکوں کی اس سازش کی اطلاع بھی دے دی۔ اور ہجرت کی اجازت بھی دے دی۔ چنانچہ نہایت خفیہ طور پر ہجرت کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مشرکین و کفار کے شر سے بال بال بچ گئے۔ اور کافروں کا یہ منصوبہ بھی بری طرح ناکام ہوگیا۔ ٧۔ ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری یا قتل پر سو اونٹ انعام کی پیش کش : اس بھاری انعام کے لالچ میں لوگ فرداً فرداً بھی اور ٹولیاں بن کر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش اور تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور ایک گروہ تو نقوش پا کا سراغ لگاتے لگاتے غار ثور کے دھانہ تک پہنچ بھی گیا۔ یہ لوگ غار کے منہ کے اس قدر قریب ہوگئے تھے کہ اگر وہ اپنے پاؤں کی طرف دیکھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر نظر پڑ سکتی تھی۔ اس موقعہ پر بھی صبر و استقامت کے اس پیکر اعظم میں ذرہ بھر بھی لغزش نہ آئی۔ اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا ’’غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ (٩ : ٤٠) یہ واقعہ بھی سورۃ توبہ آیت نمبر ٤٠ میں مذکور ہے وہاں حاشیہ دیکھ لیا جائے۔ انفرادی تعاقب کرنے والوں میں سراقہ بن مالک کا واقعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے جو فی الواقع آپ کے سر پر جا پہنچا تھا مگر اس کے گھوڑے نے یک لخت ٹھوکر کھائی تو وہ گر پڑا۔ پھر سوار ہوا تو پھر گھوڑے نے دوسری بار ٹھوکر کھائی۔ پھر گرا۔ پھر سوار ہوا تو گھوڑے نے تیسری بار ٹھوکر کھائی۔ اب وہ سمجھ گیا کہ اس کی خیر اسی میں ہے کہ وہ ان کے قریب تک نہ جائے۔ رسول اللہ نے مڑ کر جو سراقہ کو دیکھا تو دعا کی 'اے اللہ اسے گرا دے' چنانچہ اس کا گھوڑا گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا۔ (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب ہجرۃ النبی واصحابہ الی المدینۃ) مزید تفصیل سورۃ توبہ کی آیت نمبر ٤٠ کے حاشیہ یعنی واقعہ ہجرت میں آئے گی۔ ٨۔ عمیر بن وہب جمحی کا ارادہ قتل ٢ ھ: عمیر بھی آپ کے صف اول کے دشمنوں میں سے تھا۔ جنگ بدر میں اس کا بیٹا گرفتار ہو کر مسلمانوں کی قید میں چلا گیا تو یہ شخص غصہ سے بے تاب ہوگیا اور انتقام لینے کا تہیہ کرلیا۔ ایک دن عمیر نے حطیم میں بیٹھ کر صفوان بن امیہ کے سامنے بدر کے کنوئیں میں پھینکے جانے والے مقتولین کا ذکر کیا تو صفوان کہنے لگا ’’واللہ ! اب تو جینے کا کچھ مزا نہیں‘‘عمیر کہنے لگا ’’اگر میرے سر پر قرض نہ ہوتا اور میرے اہل و عیال نہ ہوتے تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا کر اسے قتل کر ڈالتا۔‘‘ صفوان کہنے لگا ’’تمہارے قرض کی ادائیگی میرے ذمہ رہی اور بال بچوں کی نگہداشت بھی۔ اگر میرے پاس کچھ کھانے کو ہوگا تو انہیں بھی ضرور ملے گا۔‘‘ عمیر نے کہا ’’ٹھیک ہے مگر اب اس بات کو اپنی ذات تک محدود رکھنا۔‘‘ اور صفوان نے اس بات کا اقرار کرلیا۔ اب عمیر نے اپنی تلوار کو زہر آلود کرایا اور مدینہ جا کر مسجد نبوی میں پہنچ گیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اطلاع دی کہ آپ کا دشمن عمیر بن وہب گلے میں تلوار حمائل کیے آیا ہے اور آپ سے ملاقات کی اجازت چاہتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اسے آنے دو‘‘ تاہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ازراہ احتیاط اس کی تلوار کا پر تلا لپیٹ کر پکڑ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا ’’اس کی تلوار کو چھوڑ دو‘‘ پھر عمیر سے پوچھا ’’بتاؤ کیسے آنا ہوا ؟‘‘ عمیر کہنے لگا ’’میرا بیٹا آپ کی قید میں ہے آپ احسان فرما دیجئے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر یہی بات ہے تو پھر تلوار کیوں حمائل کر رکھی ہے۔‘‘ کہنے لگا ’’یہ تلواریں بھلا پہلے کس کام آئیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ٹھیک ٹھیک بات بتاؤ۔ ادھر ادھر کی مت ہانکو۔ ‘‘ اور جب عمیر نے پھر وہی پہلی بات دہرا دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بات یوں نہیں۔ بلکہ تم مجھے قتل کرنے کے ارادہ سے آئے ہو۔ تم نے اور صفوان بن امیہ نے حطیم میں بیٹھ کر یہ مشورہ کیا۔ صفوان نے تمہارے قرض اور بال بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری قبول کی اور تم مجھے قتل کرنے یہاں آ گئے۔ لیکن یاد رکھو اللہ میرے اور تمہارے درمیان حائل ہے۔‘‘ عمیر نے خیال کیا کہ یہ معاملہ ایسا تھا جس کا صفوان کے علاوہ کسی کو بھی علم نہ تھا اسے کس نے بتایا ؟ یقیناً یہ نبی ہی ہوسکتا ہے اور ہم ہی غلطی پر ہیں۔ اس خیال کے آتے ہی اس نے آپ کے سامنے کلمہ شہادت کا اقرار کیا اور مسلمان ہوگیا۔ آپ نے صحابہ سے فرمایا : اپنے بھائی کو دین سمجھاؤ، قرآن پڑھاؤ اور اس کے بیٹے کو آزاد کر دو۔ ‘‘ ادھر صفوان نے مکہ میں مشہور کر رکھا تھا کہ میں عنقریب تم لوگوں کو ایک خوشخبری سناؤں گا مگر اس کے بجائے جب اسے عمیر کے مسلمان ہوجانے کی اطلاع ملی تو غصہ سے جل بھن گیا اور اس نے قسم کھالی کہ آئندہ عمیر سے بات تک نہ کروں گا اور نہ ہی اسے کسی قسم کا نفع پہنچاؤں گا۔ عمیر اسلام سیکھ کر چند دن بعد مکہ آیا۔ اور یہاں آ کر دعوت کا کام شروع کردیا اور اس کے ذریعہ بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔ (ابن ہشام ١ : ٦٦١ تا ٦٦٣ بحوالہ الرحیق المختوم ص ٣٧٢) (٩) یہود کا منصوبہ قتل ٤ ھ: بئر معونہ کے واقعہ نے ایک دفعہ پھر غزوہ احد کے چرکہ کی یاد تازہ کردی۔ ستر قاریوں میں سے صرف عمرو بن امیہ ضمری بچے جنہیں کافروں نے گرفتار کرلیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ غزوۃ الرجیع و بئرمعونہ) مگر آپ ان کی قید سے نکل بھاگے اور مدینہ پہنچ کر اس دردناک واقعہ کی آپ کو اطلاع دی۔ راستہ میں عمرو بن امیہ نے غلطی سے دو آدمیوں کو دشمن سمجھ کر ان کا صفایا کردیا حالانکہ وہ معاہد تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ کو بہت دکھ ہوا اور فرمایا کہ’’اب ہمیں ان دو آدمیوں کی دیت ادا کرنا ہوگی۔‘‘ چنانچہ اس رقم کی فراہمی میں مشغول ہوگئے۔ میثاق مدینہ کی رو سے یہود بھی اس طرح کی دیت میں برابر کے شریک قرار دیئے گئے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کو ساتھ لے کر بنو نضیر کے ہاں تشریف لے گئے۔ ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مکان کے صحن میں بٹھایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور یہود وہاں سے اس بہانہ سے اٹھ کر چلے آئے کہ ہم جا کر رقم اکٹھی کرتے ہیں۔ وہاں سے باہر آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کے مشورے ہونے لگے۔ ایک یہودی کہنے لگا ’’کون ہے جو مکان کی چھت پر جا کر اوپر سے چکی کا پاٹ گرا کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گرا کر اسے کچل ڈالے؟‘‘ ایک دوسرا بدبخت فوراً اس کام کے لیے تیار ہوگیا۔ ان لوگوں کے اس ارادہ کی آپ کو بذریعہ وحی خبر ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً وہاں سے اٹھے اور مسجد کی طرف روانہ ہوگئے۔ صحابہ کو بھی آپ نے راہ ہی میں یہود کے اس مذموم ارادہ سے مطلع فرمایا۔ یہود کی یہی غداری غزوہ بنو نضیر کا فوری سبب بن گئی اور بالآخر انہیں جلاوطن ہونا پڑا۔ (الرحیق المختوم ص ٤٦٢) (١٠) ثمامہ بن اثال کا ارادہ قتل ٦ ھ : سنہ ٦ ہجری میں مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا لشکر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی سر کردگی میں یمنی قبیلوں کی سیاسی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا گیا۔ یہ لشکر قبیلہ بنو حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثال حنفی کو گرفتار کر کے مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔ ثمامہ مسیلمہ کذاب کے حکم سے بھیس بدل کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے نکلا تھا کہ مسلمانوں کے اس لشکر کے ہتھے چڑھ گیا اور مسلمانوں نے اسے گرفتار کرلیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دینے کا حکم دیا اور پوچھا ’’ثمامہ! کیا صورت حال ہے؟‘‘ ثمامہ کہنے لگا ’’اگر مجھے قتل کر دو گے تو میرا قصاص لیا جائے گا اور اگر معاف کر دو گے تو ایک قدردان کو معاف کرو گے اور مال چاہتے ہو تو جتنا چاہو مل جائے گا۔‘‘ آپ ثمامہ کا یہ جواب سن کر واپس چلے گئے اور کوئی جواب نہ دیا۔ دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر تشریف لائے اور وہی پہلا سا سوال کیا۔ جواب میں ثمامہ نے بھی وہی پہلی باتیں دہرا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے آئے اور کوئی جواب نہ دیا۔ تیسرے دن پھر ایسا ہی سوال و جواب ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ کا وہی پہلا جواب سن کر صحابہ سے فرمایا کہ ’’اسے رہا کر دو۔ ‘‘ رہائی کے بعد ثمامہ نے ایک باغ میں جا کر غسل کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آ کر اسلام قبول کرلیا۔ اور کہنے لگا ’’واللہ ! آج سے پہلے مجھے آپ کا چہرہ سب سے زیادہ ناپسند تھا مگر آج سب سے زیادہ محبوب ہے اور آپ کا دین سب ادیان سے زیادہ ناپسند تھا مگر آج یہی دین سب سے زیادہ محبوب ہے میں عمرہ کا ارادہ کر رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے مجھے پکڑ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بشارت دی اور عمرہ کرنے کی ہدایت فرمائی۔ چنانچہ جب ثمامہ عمرہ کرنے کی غرض سے مکہ آئے تو مشرکین مکہ کہنے لگے ’’ثمامہ بےدین ہوگیا ہے‘‘ ثمامہ نے کہا ’’نہیں بلکہ میں تو مسلمان ہوا ہوں اور دیکھو! آئندہ تمہیں یمن سے گندم کا ایک دانہ بھی نہ پہنچے گا تاآنکہ رسول اللہ مجھے اس بات کا حکم نہ دیں۔‘‘ چنانچہ بعد میں واقعتاً بھی یہی کچھ ہوا۔ ثمامہ بن اثال کا واقعہ صحیحین میں کئی مقامات پر مذکور ہے مگر ان میں یہ صراحت نہیں کہ ثمامہ جب گرفتار ہوئے تو اس وقت مسیلمہ کذاب کے حکم کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کے ارادہ سے نکلے تھے اس بات کی وضاحت سیرۃ طیبہ میں موجود ہے (سیرۃ طیبہ ٢ : ٢٩٧ بحوالہ الرحیق المختوم ص ٥٠٦) ١١۔ زہر آلود بکری کے گوشت سے آپ کے قتل کی یہودی سازش ٧ ھ : خیبر کے فتح ہونے اور یہود سے مزارعت کا معاملہ طے ہوجانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند دن خیبر میں قیام فرمایا۔ غدار اور مکار شکست خوردہ یہود نے ان ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلاک کرنے کی ایک سازش تیار کی۔ سلام بن مشکم کی بیوی کو، جو یہودی سردار مرحب کی بیٹی تھی، اس کام کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ زینب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت کا پیغام بھیجا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہ کرم قبول کرلیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیا گیا کہ آپ کون سا گوشت کھانا پسند فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا 'دستی کا'اس دعوت میں آپ چند صحابہ سمیت وقت معینہ پر پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا شروع کیا تو پہلا نوالہ منہ میں ڈالتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر کا اثر محسوس ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ لیکن سیدنا بشر رضی اللہ عنہ بن براء نے چند ایک لقمے کھا لیے تھے لہٰذا وہ اس زہر کے اثر سے ایک دو دن بعد شہید ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب کو بلا کر پوچھا تو اس نے اعتراف جرم کرلیا اور یہ بھی بتا دیا کہ اس سازش میں پوری یہودی قوم شریک تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے پوچھا کہ ’’تم نے یہ کام کیوں کیا ؟‘‘ وہ کہنے لگے کہ ’’ہمارا خیال تھا کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو آپ پر زہر اثر نہیں کرے گا اور اگر جھوٹے ہیں تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی۔‘‘ (بخاری کتاب الطب۔ باب مایذکر فی سم النبی۔۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے تو زینب اور یہود کو معاف فرما دیا لیکن سیدنا بشر رضی اللہ عنہ کے قصاص میں زینب کے قتل کا حکم دے دیا۔ (ابن ہشام ٢ : ٢٣٥ تا ٢٣٧ بحوالہ الرحیق المختوم ص ٥٩٨) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا ' عائشہ رضی اللہ عنہا ! اب مجھے معلوم ہوا کہ جو لقمہ میں نے خیبر میں کھایا تھا اس کے زہر کے اثر سے میری رگ جان کٹ گئی (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب مرض النبی۔۔) ١٢۔ خسرو پرویز شاہ ایران کا ارادہ قتل ٧ ھ : صلح حدیبیہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہان عجم کے نام دعوت نامے بھیجے۔ شاہ ایران کو جب یہ دعوت نامہ پہنچا تو غصہ سے خط پھاڑ دیا اور کہنے لگا : ’’میرا غلام ہو کر ایسا خط لکھتا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ ’’اے اللہ ان لوگوں کو بھی ہلاک کر دے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب کتاب النبی الی کسریٰ و قیصر) پھر اس نے حاکم یمن باذان کو حکم بھیجا کہ وہ کسی آدمی کو بھیج کر اس مدعی نبوت کو گرفتار کرکے ہمارے حضور پیش کرے۔ باذان نے دو آدمی اس غرض سے مدینہ بھیجے۔ انہوں نے مدینہ پہنچ کر عرض کی کہ ’’شہنشاہ عالم کسریٰ نے تم کو بلایا ہے اگر اس کے حکم کی تعمیل نہ کرو گے تو وہ تمہیں اور تمہارے ملک کو تباہ و برباد کر دے گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا’’اچھا تم کل آنا۔‘‘ دوسرے دن جب وہ حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تمہارے شہنشاہ عالم کو آج رات اس کے بیٹے نے قتل کر ڈالا ہے۔ تم واپس چلے جاؤ اور اسے کہہ دینا کہ اسلام کی حکومت ایران کے پایہ تخت تک پہنچے گی۔‘‘ وہ آدمی جب یمن واپس آئے تو خسرو کے قتل کی خبر وہاں پہنچ چکی تھی۔ یہ ماجرا دیکھ کر وہ لوگ مسلمان ہوگئے۔ (سیرۃ النبی۔ شبلی نعمانی ج ١ ص ٤٨٢) ١٣۔ جادو کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلاک کرنے کی یہودی سازش : زہر آلود بکری کے گوشت کے واقعہ کے بعد یہود نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلاک کرنے کا ایک نیا منصوبہ بنایا۔ اپنے حلیف لبید بن اعصم سے جو بڑا ماہر جادوگر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسا خطرناک جادو کرنے کی درخواست کی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جلد از جلد ہلاک کر ڈالے۔ لبید نے اس سلسلہ میں اپنی دو لڑکیوں کو ذریعہ بنایا جنہوں نے کسی نہ کسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے کچھ بال حاصل کرلیے۔ ان بالوں پر منتر پڑھے گئے پھر ان میں گانٹھیں دے کر پھونکیں ماری گئیں۔ پھر انہیں کھجوروں کے خوشوں کے غلاف میں چھپا کر ذروان نامی کنوئیں کی تہہ میں ایک پتھر کے نیچے دبا دیا گیا۔ یہ جادو اتنا تیز اور سخت تھا کہ اس کے اثر سے اس کنوئیں کے پانی کا رنگ اتنا سرخ اور خونی ہوگیا جیسے اس میں مہندی ڈال دی گئی ہو اور اس کنوئیں پر واقع درختوں کے خوشے یوں لگتے تھے جیسے سانپوں کے پھن ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں فرشتے بھیج کر اس کی حقیقت بتلا دی اور اس طرح اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شر سے بھی محفوظ کرلیا۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے بخاری۔ کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس و جنودہ۔ نیز کتاب الادب۔ باب ( اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ 90) 16۔ النحل :90) اور سورۃ فلق کا حاشیہ نمبر ٥ ١٤۔ دشمن قبیلہ کے ایک بدوی کا ارادہ قتل : غزوہ ذات الرقاع سے واپسی پر اسلامی لشکر نے ایک مقام پر پڑاؤ کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم الگ الگ درختوں کے نیچے آرام کرنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک درخت کے نیچے جا بیٹھے تلوار درخت سے لٹکائی اور لیٹتے ہی نیند غالب آ گئی۔ اتنے میں دشمن قبیلہ کا ایک بدو وہاں پہنچ گیا۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے اس موقعہ کو نہایت غنیمت سمجھا اور بڑھ کر تلوار درخت سے اتارنے لگا۔ وہ تلوار کو اتار ہی رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جاگ آ گئی۔ بدو تلوار ہاتھ میں پکڑ کر کہنے لگا۔ ’’اب بتلاؤ! تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت اطمینان سے جواب دیا ’’میرا اللہ ‘‘ یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر بے باکی سے کہے کہ بدو سخت مرعوب ہوگیا اور کانپنے لگا۔ تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار سنبھال لی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر قابو پا لیا تو صحابہ کو بلا کر اس ماجرا سے آگاہ کیا۔ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بدو کو معاف کردیا۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد، باب من علق سیفہ بالشجرۃ فی السفر عند القائلۃ) واضح رہے کہ یہ بدوی اسی قبیلہ سے تھا جس کی سرکوبی کے لیے آپ نکلے ہوئے تھے۔ ١٥۔ فضالہ بن عمیر کا ارادہ قتل ٨ ھ : یہ فضالہ اسی عمیر بن وہب کا بیٹا تھا جو صفوان بن امیہ سے مشورہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے مدینہ پہنچا تھا اور نتیجتاً اسلام لا کر واپس مکہ جا کر مقیم ہوگیا تھا۔ اس کا بیٹا فضالہ ابھی تک مشرک ہی تھا۔ فتح مکہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کا طواف فرما رہے تھے کہ فضالہ کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سوجھی۔ جب وہ اس ارادہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اسے اس کے ارادہ سے مطلع کردیا۔ جس پر وہ اپنے باپ کی طرح مسلمان ہوگیا (الرحیق المختوم ص ٦٤٨) ١٦۔ منافقوں کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی سازش ٩ ھ : غزوہ تبوک سے واپسی پر تقریباً چودہ یا پندرہ منافقوں نے یہ سازش تیار کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھلے راستہ کے بجائے گھاٹی والے راستہ کی طرف رہنمائی کی جائے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچ جائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سواری سے اٹھا کر نیچے گھاٹی میں پھینک کر ہلاک کردیا جائے اسی سازش کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کو اس راہ پر ڈال دیا گیا۔ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ جب گھاٹی قریب آنے کو تھی تو چند منافق منہ پر ڈھاٹے باندھے رات کی تاریکی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھنے لگے۔ دریں اثنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ منافقوں کے اس مذموم ارادہ کی اطلاع مل گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ ان منافقوں کی سواریوں کے چہروں پر مار مار کر انہیں تتر بتر کردیں۔ اس کام سے منافقوں کو بھی شبہ ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مذموم ارادہ سے مطلع ہوچکے ہیں۔ لہٰذا اب انہیں اپنی جانیں بچانے کی فکر دامن گیر ہوئی اور انہوں نے راہ فرار اختیار کی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے منافقوں کا یہ منصوبہ قتل بھی ناکام بنا دیا۔ (الرحیق المختوم ص ٦٨٦) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو ان منافقوں کے نام معہ ولدیت بتلا دیئے تھے اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ ان کو پہنچانتے بھی تھے۔ تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ ہدایت کردی تھی کہ عام مسلمانوں میں انہیں مشہور نہ کیا جائے۔ یہ سازشی منافق بعد میں اہل عقبہ کے نام سے مشہور ہوئے اور ان کا ذکر مسلم، کتاب صفۃ المنافقین میں بھی مجملاً مذکور ہے۔ نیز دیکھئے (سورہ حجرات کا حاشیہ نمبر ٣٤) ١٧۔ عامر بن طفیل اور اربد کی سازش قتل ١٠ ھ : ١٠ ھ میں مدینہ میں جو وفود آئے ان میں سے ایک وفد عامر بن صعصعہ کا بھی تھا۔ یہ وفد رشد و ہدایت کی غرض سے نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ناپاک ارادہ سے آیا تھا۔ ایک وفد میں ایک تو عامر بن طفیل تھا اور یہ وہی شخص ہے جس نے فریب کاری سے بئرمعونہ کے ستر قاریوں کو شہید کردیا تھا۔ دوسرا اربد بن قیس۔ تیسرا خالد بن جعفر اور چوتھا جبار بن اسلم تھا۔ یہ سب کے سب قوم کے سردار اور شیطان صفت انسان تھے۔ عامر اور اربد نے راستہ ہی میں یہ سازش تیار کی کہ دھوکہ دے کر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کردیں گے چنانچہ جب یہ وفد مدینہ پہنچا تو عامر نے گفتگو کا آغاز کیا تاکہ آپ کو دھیان لگائے رکھے۔ اتنے میں اربد گھوم کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پہنچ گیا۔ وہ میان سے تلوار نکال ہی رہا تھا کہ اللہ نے اس کے ہاتھ کی حرکت بند کردی اور وہ اسے بے نیام بھی نہ کرسکا اور ان کی یہ سازش دھری کی دھری رہ گئی اور ان کے عزائم طشت ازبام ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں پر بددعا کی۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ چنانچہ واپسی پر اربد اور اس کے اونٹ پر بجلی گری جس سے وہ جل کر مر گیا۔ رہا عامر تو واپسی کے سفر کے دوران اس کی گردن پر ایک ایسی گلٹی نکلی جس نے اسے موت سے دوچار کردیا۔ مرتے وقت اس کی زبان پر یہ الفاظ تھے ’’آہ : اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی اور ایک فلاں خاندان کی عورت کے گھر میں موت۔‘‘ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق عامر نے اپنی گفتگو کا جو آغاز کیا وہ یوں تھا ’’میں آپ کو تین باتوں کا اختیار دیتا ہوں۔ (١) دیہاتی آبادی کے حاکم آپ ہوں اور شہری آبادی کا حاکم میں ہوں گا۔ (٢) یا آپ کے بعد آپ کا خلیفہ میں بنوں گا اور (٣) اگر یہ دونوں باتیں نامنظور ہوں تو میں غطفان کے ایک ہزار گھوڑوں اور ایک ہزار گھوڑیوں کو آپ پر چڑھا لاؤں گا (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الرجیع و رعل و ذکوان) اس واقعہ کے بعد وہ ایک عورت کے گھر میں طاعون کا شکار ہوگیا اور مرتے وقت اس کی زبان پر یہ الفاظ تھے ’’اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی اور وہ بھی بنی فلاں کی ایک عورت کے گھر میں۔ میرے پاس میرا گھوڑا لاؤ۔‘‘ چنانچہ وہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اسی حالت میں اسے موت نے آ لیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الرجیع و رعل و ذکوان) سو یہ ہے ان قاتلانہ حملوں اور سازشوں کی مختصر داستان جن میں بالخصوص اس محسن اعظم کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے کے منصوبے تیار کیے گئے تھے اس محسن انسانیت کے لیے جو دنیا بھر کے لوگوں کی اصلاح و فلاح کا یکساں درد رکھتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ایسی تمام سازشوں اور حملوں کو ناکام بنا کر ﴿وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ﴾ کا وعدہ پورا کردیا۔