وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے (١) اس لئے آپ ان کے آپس کے معاملات میں اسی اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کے مطابق حکم کیجئے (٢) اس حق سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کے پیچھے نہ جائیے (٣) تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک دستور اور راہ مقرر کردی (٤) اگر منظور مولا ہوتا تو سب کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن اس کی چاہت ہے کہ جو تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے (٥) تم نیکیوں کی طرف جلدی کرو تم سب کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے، پھر وہ تمہیں ہر وہ چیز بتا دے گا، جس میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے۔
[٨٧] قرآن سابقہ کتب پر مہیمن کیسے؟ مھیمن کے معنی ہیں محافظ اور نگران۔ حفاظت اور نگرانی کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ مھیمن سے مراد ایسی حفاظت اور نگرانی ہے جیسے ایک مرغی اپنے سب بچوں کو اپنے پروں کے نیچے سمیٹ لیتی ہے تاکہ کوئی پرندہ جیسے چیل وغیرہ ان پر حملہ آور نہ ہو سکے یا وہ اپنے بچوں کو سردی سے بچا سکے۔ یہاں قرآن کو باقی سب کتب سماوی پر مھیمن کہنے سے مراد یہ ہے کہ اس میں پہلے کی تمام کتب سماویہ کے مضامین آ گئے ہیں۔ نیز قرآن ان سب کتابوں کے لیے ایک کسوٹی کے معیار کا کام دیتا ہے وہ اس طرح کہ : ١۔ انجیل و تورات میں جو مضمون قرآن کے مطابق ہوگا وہ یقیناً اللہ ہی کا کلام ہوگا۔ ٢۔ اور جو مضمون قرآن کے خلاف ہوگا وہ ہرگز اللہ کا کلام نہیں ہو سکتا۔ وہ یقیناً لوگوں کا کلام ہے۔ جو کتاب اللہ میں شامل کردیا گیا ہے۔ جیسے موجودہ اناجیل میں عقیدہ تثلیث اور الوہیت مسیح اور کفارہ مسیح کے عقائد پائے جاتے ہیں اور بائیبل میں انبیاء کی توہین کے علاوہ کئی ایسے مضامین پائے جاتے ہیں جن سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ اللہ کا کلام نہیں ہو سکتے۔ ٣۔ اور جو مضمون قرآن کے نہ مطابق ہو نہ مخالف اس کے متعلق مسلمانوں کو خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ نہ اس کی تصدیق کریں اور نہ تکذیب۔ [٨٨] شریعتوں کا فرق :۔ یعنی سب انبیاء اور ان کی امتوں کا دین تو ایک تھا لیکن شریعتیں الگ الگ تھیں۔ دین سے مراد بنیادی عقائد و نظریات ہیں مثلاً صرف اللہ کو ہی خالق و مالک اور رازق سمجھنا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا اور صرف اسی اکیلے کی عبادت کرنا۔ اللہ اور اس کے رسولوں کی پوری طرح اطاعت کرنا اور آخرت کے دن پر اور اپنے کیے کی جزا و سزا بھگتنے پر ایمان لانا وغیرہ اور شریعت سے مراد وہ احکام ہیں جو اس دور کے تقاضوں کے مطابق دیئے جاتے رہے۔ مثلاً تمام امتوں کو نماز، زکوٰۃ اور روزہ کا حکم تھا۔ مگر نمازوں کی تعداد اور ترکیب نماز میں فرق تھا اسی طرح نصاب زکوٰۃ اور شرح زکوٰۃ میں بھی فرق تھا اور روزوں کی تعداد میں بھی۔ یا مثلاً آدم کی اولاد میں بہن بھائی کا نکاح جائز تھا اور یہ ایک اضطراری امر تھا۔ بعد میں حرام ہوگیا جب اس کی ضرورت نہ رہی۔ امت مسلمہ سے پہلے بیویوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہ تھی جیسا کہ سیدنا سلیمان کی سو بیویاں تھیں وغیرہ وغیرہ اور ایسے مسائل بے شمار ہیں اور زندگی کے ہر پہلو سے تعلق رکھتے ہیں۔ [٨٩] عقل صحیح کا تقاضا اور دنیا میں امتحان :۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے قوت تمیز، قوت ارادہ اور قوت اختیار دی ہی اس لیے ہے کہ یہ معلوم ہو سکے کہ انسانوں میں سے کون اللہ اور اس کے رسولوں کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتا ہے اور کون اس سے انحراف کرتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو انسان کو جاندار ہونے کے باوجود ان قوتوں سے نہ نوازتا تو انسان بھی اللہ اور اس کے رسولوں کی اطاعت پر اسی طرح مجبور و پابند ہوتا جس طرح کائنات کی دوسری اشیاء احکام الٰہی کے سامنے مجبور اور اس کی پابند ہیں۔ اس طرح کسی امت میں کبھی بھی کوئی اختلاف واقع نہ ہوتا۔ لیکن اس طرح تخلیق انسان، اسے دنیا میں بھیجنے اور دنیا کو دارالعمل اور دارالابتلاء بنانے کا مقصد پورا نہ ہوسکتا تھا لہٰذا اب انسان کا اصل کام یہ نہیں کہ ان قوتوں کا غلط استعمال کر کے اپنی خواہشات کے پیچھے پڑ کر احکام الٰہی سے انحراف کرے اور کتاب اللہ کی آیات کے مفہوم و معانی میں تاویل کر کے امت میں اختلاف کی راہ کھول دے اور اپنی اس آزادی کا غلط استعمال کرتے ہوئے فرقہ بندیوں کی بنیاد رکھ دے بلکہ اس کا اصل کام یہ ہونا چاہیے کہ اس آزادی رائے، ارادہ اور اختیار کو احکام الٰہی کے تابع رکھتے ہوئے نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ [٩٠] یعنی فرقہ پرستوں کے اختلافات ان کی اپنی ہٹ دھرمی اور باہمی ضد کی وجہ سے اس دنیا میں ختم نہیں ہو سکتے۔ ان کا آخری فیصلہ نہ مجالس مناظرہ میں ہوسکتا ہے اور نہ میدان جنگ میں۔ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ خود قیامت کے دن کر دے گا اس وقت انہیں معلوم ہوجائے گا کہ جن جھگڑوں میں انہوں نے اپنی عمریں ضائع کردی تھیں ان میں حق کا پہلو کتنا تھا اور باطل کا کتنا ؟