يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَىٰ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ أَن تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ ۖ فَقَدْ جَاءَكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اے اہل کتاب ہمارا رسول تمہارے پاس رسولوں کی آمد کے ایک وقفے کے بعد آپہنچا ہے۔ جو تمہارے لئے صاف صاف بیان کر رہا ہے تاکہ تمہاری یہ بات نہ رہ جائے کہ ہمارے پاس تو کوئی بھلائی، برائی سنانے والا آیا ہی نہیں، پس اب تو یقیناً خوشخبری سنانے والا اور آگاہ کرنے والا آپہنچا (١) اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
[٥] اہل کتاب کو نبی آخر الزمان کا انتظار :۔ بنی اسرائیل میں بیک وقت ایک ہی زمانہ میں متعدد انبیاء مبعوث ہوتے رہے۔ دینی قیادت بھی انہیں کے پاس ہوتی تھی اور دنیوی قیادت بھی۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بعد انبیاء کی بعثت کا سلسلہ بند ہوا اور مسلسل چھ سو سال تک بند رہا۔ اس کے بعد نبی آخر الزمان مبعوث ہوئے یہود اس نبی کے انتظار میں رہا کرتے اور مشرکین سے کہا کرتے کہ جب نبی آخر الزماں آئے گا تو ہم اس کے جھنڈے تلے جمع ہو کر تم پر فتح حاصل کریں گے۔ مگر جب نبی آخر الزمان تشریف لائے تو یہود نے انہیں دی ہوئی بشارات کے مطابق ٹھیک طرح پہچان لیا۔ پھر صرف اس بنا پر آپ کی نبوت کا انکار کردیا کہ آپ بنی سرائیل میں سے نہ تھے۔ انہی یہود کو اللہ تعالیٰ مخاطب کر کے فرما رہے ہیں کہ جس بشیر و نذیر کا تمہیں انتظار تھا وہ آ چکا۔ اب تمہارے پاس کچھ عذر باقی نہیں رہ گیا۔ لہٰذا اگر اب تم اس سے انکار کر رہے ہو تو خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس جرم کفر کی سزا دینے پر پوری طرح قادر ہے۔ یہود کی طرح نصاریٰ کو بھی نبی آخر الزماں کا انتظار تھا اور ان کا یہ خیال تھا کہ وہ نبی ہم میں سے ہوگا اور ہم اس کے ساتھ مل کر یہود سے بدلہ لیں گے۔ پھر جب ان کی یہ آرزو پوری نہ ہوسکی تو ان میں سے بھی اکثر نبی آخر الزماں کے مخالف ہوگئے۔